قیوم لودھی انکل کی بھٹو سے ملاقاتیں رہیں
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 392
دو پیازہ کی محفلیں
ریحان کے سٹور پر اکثر محفل رات دیر سے ختم ہوتی تو قریب ہی "دوپیازہ ریسٹورنٹ" چلے آتے جہاں سعودی بھائی (مسعود شیخ ریسٹورنٹ کے مالک) ہمارے منتظر ہوتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ امی جی کی سب سے چھوٹی ممانی "باجی صوبی" کے قریبی عزیز تھے۔ پھر ان سے میرا تعلق کچھ اور قریبی ہو گیا۔
شام کی محفل
یہاں کچھ دیر کی محفل دراصل رات کا ایک اور کھانا ہوتی جس میں تڑکا لگی دال، گرم تندوری روٹی سے سبھی کی بھوک چمک اٹھتی تھی۔ یہاں کچھ اور دوستوں سے بھی شناسائی ہو گئی جن میں قیوم لودھی انکل (پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن، بھٹو کے شیدائی) شامل تھے۔ وہ اس علاقے میں پیپلز پارٹی کی تاریخ تھے۔ کبھی اس موضوع پر بات ہوتی تو کہتے "یار! اب تو سیاست ہی چھوڑ دی۔ دراصل میری سیاسی جدوجہد بی بی شہید کے ساتھ ختم ہو گئی۔ اب تو بس چل چلی کا میلہ ہے۔"
صدیق فاروق کی ملاقات
لودھی انکل پرانی ثقافت کے امین نفیس انسان تھے۔ لمبے بال اور اونچے قد کے، وہ بڑے انسان تھے۔ یہیں میری ملاقات بڑی بڑی مونچھوں، کھلتی رنگت اور مسکراتے چہرے والے شخص سے ہوئی۔ یہ صدیق فاروق تھے۔ چند دن کی ملاقات کے بعد کہنے لگے؛ "یار! تم ماڈل ٹاؤن لاہور والے شہزاد ہو۔ بابر کو جانتے ہو نا؟"
پرانی یادیں
میں نے کہا جی صحیح پہچانا میں وہی ہوں۔ بولے؛ "لیکن تم نے نہیں پہچانا مجھے۔ میں صدیق فاروق (بنٹو) ہوں، بابر کا خالہ زاد بھائی اور باجو کا میاں۔" انہوں نے پرجوش انداز میں مجھے گلے لگا لیا۔ یہ دنیا اب بہت سمٹ چکی ہے۔ ان سے ملاقات تقریباً 30 سال بعد ہوئی تھی۔
محفلوں کا موضوع
یہاں سجی محفلوں میں پرانے قصوں سے لے کر ناکام محبتوں کی کہانیاں اور نئے دور کی بے ثباتی، انسانوں کی بے حسی اور گرتی معاشرتی اقتدار پر دل کھول کر بحث ہوتی۔ بعض اوقات اس گفتگو میں کچھ گرمی سردی بھی ہو جاتی، مگر ان محفل داروں کی محبت اور خلوص کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
دوست امتیاز محمود احمد چیمہ
میرا دوست اور کولیگ امتیاز محمود احمد چیمہ (چار ناموں والے یہ ایک ہی شخص کا نام تھا) کا تبادلہ بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر مقامی حکومت لودھراں ہوا۔ امتیاز گجرات کا رہنے والا خوش پوش، سلجھا ہوا، کہیں کہیں الجھا ہوا خاندانی شخص ہے۔
محفل میں شرکت
لودھراں اور بہاول پور کے درمیان دریائے ستلج بہتا ہے۔ دریا کے اُس پار لودھراں اور اِس پار بہاول پور ہے۔ امتیاز چیمہ بھی ہمارے ساتھ ہاشمی گارڈنز کا مکین بنا۔ ہم دو سے تین ہو گئے تھے۔ دو پیازہ کی محفلوں میں وہ بھی شرکت کرتا۔ اس کی خراب عادتوں میں ایک "بہت بولنا" بھی تھا، جس پر عامر کہا کرتا تھا کہ "یار! جب تک تم دن میں دس ہزار لفظ نہ بول لو تب تک تمھارا گزارا ہی نہیں۔"
خاطر خواہ تحریری صلاحیت
میری کتاب "ریت سے روح تک" کی تقریب رونمائی میں اس نے مقالہ بھی پڑھا تھا۔ یوں وہ اپنی علمی قابلیت کا بھی راز اگل گیا۔ چند ماہ وہ اس محفل کا حصہ رہا اور پھر اس کا تبادلہ لالہ موسیٰ پناہ گاہ ہو گیا۔ یوں وہ ہم سے دور تو چلا گیا مگر دل کے قریب ہی رہا۔
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








