سارے گاؤں سے منہ اندھیرے لسی اکٹھی کی جا چکی تھی، گاؤں نے ”سردار“ بنا کر پیش کیا، بس اب معاف کردو، یہ کہہ کر دونوں بھائی بغلگیر ہوگئے۔
مصنف: ع غ جانباز
صبح کا آغاز
قسط: 12
صبح ناشتہ میں لسّی کے ساتھ پراٹھے دیئے گئے۔ سارے گاؤں سے مُنہ اندھیرے لسّی اکٹھی کی جا چکی تھی۔ یاد رہے اِن دنوں گاؤں کے اکثر گھروں میں گائے بھینس رکھّھی ہوتی تھیں۔
دوپہر کا کھانا
دوپہر کو گائے کے گوشت کا پلاؤ، گُڑ سے تیّار کردہ میٹھے چاول۔ برات کو کھِلا کر دُلہن کی رخصتی ہوئی اور دُلہن پر دُولہا کے والد اور چند باراتیوں نے بھی خوب سکوں کی بارش کی جو گاؤں کے غریب لوگوں کے بچّوں نے اکٹھے کیے۔
بھائیوں کی محبت
جاتے جاتے دُولہا کا والد اپنے چھوٹے بھائی ”شاہو“ سے بغلگیر ہونے کو بڑھا تو شاہو شرارتاً پیچھے کو ہٹا اور کہا کہ میں ”کنگلا“۔
بڑا بھائی بولا تو کیسے ”کنگلا“ بھائی جس کی پُشت پر سارا گاؤں کھڑا ہو۔ تُجھے تو اِس گاؤں نے اپنا ”سردار“ بنا کر پیش کیا ہے۔ بس اب مجھے معاف کردو۔ یہ کہہ کر دونوں بھائی بغلگیر ہوگئے۔
مڈل سکول میں داخلہ
گاؤں کے سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد آگے تعلیم جاری رکھنے کے لیے دو صُورتیں تھیں ایک یہ کہ ”نواں شہر“ جو گاؤں سے 4 میل کے فاصلہ پر تھا اس میں واقع مڈل سکول میں داخلہ لے لیا جائے جو ایک (ریگولر) سکول تھا وہاں انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ دوسرا سکول لوئر مڈل سکول تھا جہاں چھٹی جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی لیکن وہاں انگریزی کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ غالباً چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اس نزدیکی سکول میں داخل کروا دیا گیا جو گاؤں سے ڈیڑھ دو میل تھا۔ ہم چار لڑکے اس سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ اُن میں ایک ہندو لڑکا ”اوم پرکاش“ بھی تھا جو سگریٹ نوشی کرتا تھا۔
چورو کا شوق
بس پھر کیا تھا، خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ گیا۔ اب گھر والے تو اس کارِ خیر کے لیے سرمایہ کاری کرنے سے رہے۔ چنانچہ زمیندار گھرانا تھا۔ اجناس کی صُورت میں اشیاء گھر میں بکثرت موجود ہوتی تھیں لہٰذا اُن اشیاء کی تھوڑی سی مقدار گھر سے اُڑاتے اور اپنا نیا شوق پا ل لیتے۔ کئی بار پکڑے گئے اور دَھر لیے گئے، لیکن یہ کمبخت بھلا اپنے سے جدا ہونے دیتی ہے۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔
سکول کا ماحول
یہ لوئر مڈل سکول نواں شہر سے راہوں قصبہ کو جانے والی شاہراہ پر تھا۔ سڑک تو کشادہ تھی اور دو رویہ شیشم کے درخت بھی لگائے ہوئے تھے لیکن تھی کچی سڑک، خشک موسم میں یہ کام دیتی تھی۔ اِس سکول کے ہیڈ ماسٹر لالہ کرشن چند ر تھے جو اپنی جسمانی ساخت میں کافی بخیل واقع ہوئے تھے۔ بالکل دھان پات سا جسم، چلتے میں محسوس ہوتا تھا کہ َاب گِرے کہ اب گِرے۔ لیکن در حقیقت اُن کی ہڈیاں فولادی تھیں وہ ہر روز نواں شہر سے پیدل سکول آتے اور پیدل ہی واپس جاتے تھے۔ یہ فاصلہ کم و بیش پانچ میل بنتا تھا اور ایک کام جو وہ دوران سفر کرتے تھے وہ تھا شیشم کے درخت کی سُوکھی گری ہوئی لکڑیوں کو اکٹھا کرنا اور بغل میں دباتے جانا۔ جب سکول میں داخل ہوتے تو دونوں بغلوں میں سُوکھی لکڑیوں کی اچھّی خاصی مقدار ہوتی۔ یاد رہے کہ وہ اُن لکڑیوں سے سکول میں چولہے پر چائے وغیرہ تیاّر کرتے اور ساتھ لائی ہوئی کھانے کی اشیاء گرم کرتے اور دوپہر وہیں گزارتے اور شام کو واپسی ڈالتے اور واپسی پر بھی سُوکھی لکڑیاں اکٹّھی کرنے کا کھیل کھیلتے، واپس نواں شہر لکڑیوں سے لدے پھندے پہنچتے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








