یومِ بینظیر، تاریخ کے افق پر جمہوریت کی روشنی
تحریر : قاضی محمد اسحاق میمن
بینظیر بھٹو: عہد کی علامت
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو محض شخصیت نہیں بلکہ عہد کی علامت بن جاتے ہیں۔ بینظیر بھٹو انہی تابندہ ناموں میں سے ایک ہیں، جن کی جدوجہد، فکر اور جمہوری کردار آج بھی قومی شعور کو زندہ رکھتے ہیں۔ یومِ بینظیر صرف ایک دن نہیں، ایک عہدِ وفا اور جراتِ اظہار کی یاد دہانی ہے—ایسی جرات جو خوف سے اوپر، مفاد سے پرے اور اصولوں سے جڑی ہوئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر سیف کے بیان پر عظمیٰ بخاری کا رد عمل آ گیا
ایک تاریخ ساز آغاز
بینظیر بھٹو کا سیاسی سفر محض ایک خاندانی وراثت نہیں تھا بلکہ فکری بلوغت، عالمی فہم اور قومی درد کا امتزاج تھا۔ ہارورڈ اور آکسفورڈ کے علمی ماحول نے انہیں بین الاقوامی سیاست و سماجیات کی جدید سوچ سے آشنا کیا، مگر وطن کی مٹی سے ان کا رشتہ ہمیشہ بے حد مضبوط رہا۔ جب وہ پہلی مرتبہ پاکستان واپس لوٹیں تو یہ صرف ایک بیٹی کی واپسی نہیں تھی بلکہ ایک مستقبل کی قیادت کا اعلان تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ خیبر پختونخوا میں حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی،وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے دعویٰ
جمہوریت کی علامت
پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بننا بینظیر بھٹو کے لیے صرف ایک اعزاز نہیں تھا؛ یہ پوری قوم کے لیے اس سوچ کی جیت تھی کہ قیادت کا تعلق جنس سے نہیں، جدوجہد سے ہوتا ہے۔ انہوں نے جمہوری اداروں کی مضبوطی، آزادیِ اظہار، اور بنیادی انسانی حقوق کے فروغ کے لیے وہ کام کیے جن کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ ان کی پالیسیوں میں عوامی بھلائی، معاشی انصاف اور سفارتی وقار نمایاں نظر آتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 سال سے لاپتہ ایم کیو ایم لندن کے کارکن کو ہر ممکن تلاش کرنے کا حکم
چیلنجوں میں ڈٹی رہنے والی قیادت
ان کے سیاسی سفر میں آزمائشیں مسلسل رہیں—جیل، نظر بندی، خاندان کی قربانیاں، جلاوطنی، دھمکیاں، اور سیاسی دباؤ۔ مگر ان سب کے باوجود انہوں نے کبھی عوام سے منہ نہیں موڑا۔ ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو یہی تھا کہ وہ مایوسی کو اپنی فکر کے قریب نہیں آنے دیتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں، "جمہوریت بہترین انتقام ہے"—اور انہی الفاظ کو انہوں نے اپنی جدوجہد سے سچ ثابت کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بہن نے بھائی کا ریکارڈ توڑ دیا
خواتین کے لیے امید کا چراغ
بینظیر بھٹو کی سب سے بڑی خدمات میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ہر طبقے کی عورت کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ کسی بھی منصب تک پہنچ سکتی ہے۔ ان کی قیادت نے ہزاروں لڑکیوں کے خوابوں کو نئی سمت دی۔ انہوں نے خواتین کی تعلیم، صحت، سیاسی شرکت اور معاشی خود مختاری کی راہیں ہموار کیں۔ آج بھی جب کوئی پاکستانی عورت اپنے خوابوں کا تعاقب کرتی ہے تو اس کے پیچھے بینظیر جیسی رول ماڈلز کی روشنی موجود ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈار سے حاقان فیدان کی ملاقات، ترکیہ کے دفاعی تجربات سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی کا اظہار
شہادت—ایک عہد کی تکمیل
27 دسمبر 2007 کا دن تاریخ کی سب سے سنگین اور افسوسناک یادوں میں سے ہے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت نے قوم کو سوگوار ضرور کیا، مگر اس سانحے نے ان کے نظریے کو مٹنے نہیں دیا۔ ان کی آواز رک گئی، مگر ان کا پیغام مزید بلند ہو گیا۔ آج بھی پاکستان کے سیاسی اور جمہوری سفر میں ان کی سوچ ایک روشن مینار کی طرح موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا چینی 190 روپے کلو فروخت ہونے کا اعتراف، 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ
یومِ بینظیر کا مقصد
یومِ بینظیر کا اصل مقصد انہیں یاد کرنا نہیں، بلکہ ان کے نظریات کو عملی زندگی میں زندہ رکھنا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ سوچ عطا کرتا ہے کہ:
- جمہوریت صرف نظام نہیں، امانت ہے
- قیادت وہی معتبر ہے جو عوام کے درد کو سمجھے
- اصولوں کی سیاست دیرپا ہوتی ہے
- قومیں تب ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے ہیروز کی قربانیوں کا احترام کریں
یومِ بینظیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل مضبوط تب ہی ہوگا جب ہم جمہوری قدروں کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اختتام
بینظیر بھٹو ایک شخصیت نہیں، ایک عہد کی علامت ہیں—حوصلے کی، ثابت قدمی کی، عوامی خدمت کی، اور جمہوری استقامت کی۔ ان کا نام تاریخ میں بطور رہنما امر ہے، مگر ہمارے دلوں میں بطور امید زندہ ہے۔
یومِ بینظیر دراصل اس روشنی کو زندہ رکھنے کا وعدہ ہے جو انہوں نے اپنی فکر اور قربانیوں سے اس قوم کے مقدر میں لکھی۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








