ترقی اتنی بری نہیں جیس طرح بتائی جاتی ہے، جان بوجھ کر ہمارے لیے ندامت والا ماحول بناتے ہیں، اگلی میٹنگ کے لیے میرا ہدف 45 فیصد ہوگا۔
ایک واقعہ کی یاد
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 394
یہ بھی پڑھیں: امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان پر جرمانہ عائد
اجلاس کا آغاز
قصہ سخاوت اور شفقت کا؛ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ڈویثرن کے ڈویلپمنٹ منصوبوں کا جائزہ اجلاس ہر ماہ کمشنر کی سربراہی میں ہوتا تھا۔ جس میں تمام اضلاع کے ڈی سی اوز، ڈویلپمنٹ محکموں کے سربراہان شرکت کرتے۔ بہاول پور کے ضلعی ڈویلپمنٹ افسر رانا سخاوت کبھی میرے محکمے میں بطور پراجیکٹ منیجر خاں پور تعینات رہے تھے۔ ان کا سپرنٹندنٹ چوہدری شفقت تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صدارت کا نظام ماضی میں ناکام رہا اور آئندہ بھی نہیں چل سکتا، مولانا فضل الرحمان
اجلاس میں نے کیا سنا
جب بھی اجلاس شروع ہوتا کارروائی کا آغاز میرے محکمے سے کرتے حالانکہ دوسرے محکمہ جات کے پاس ہم سے کئی گنا زیادہ ترقیاتی بجٹ ہوتا تھا اور ان کی پراگرس بھی ہم سے کم ہی ہوتی تھی۔ عامر نے ایک میٹنگ سے پہلے مجھے کہا؛ "سر! رانا سخاوت کسی بات کی خار نکالتے ہیں اور جان بوجھ کر ہمارے لئے ندامت والا ماحول بناتے ہیں۔" میں نے آنے والی ماہانہ میٹنگ سے ایک دن پہلے عامر کو ساتھ لیا اور کمشنر کے کیمپ آفس چلا آیا۔ انہیں محکمے کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کمشنر کو تفصیلاً بریف کیا اور درخواست کی؛ "سر! اگر کل کی میٹنگ کا آغاز آپ محکمہ شاہرات یا بلڈنگ کی کارگردگی سے شروع کریں تو شاید آپ بہتر اندازہ کر سکیں گے کہ ہماری پراگرس اتنی بری نہیں جیسی آپ کو بتائی جاتی تھی۔" انہوں نے حامی بھر لی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت دیرینہ مسائل کا مستقل حل نکالیں: ایرانی سفارتکار
اجلاس کا ردعمل
ابھی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ دونوں حضرات (سخاوت اور شفقت) بھی آ گئے۔ میں نے کمشنر سے اجازت چاہی تو بولے نہیں آپ بیٹھیں۔ خیر یہ دونوں حضرات کمشنر کو ڈویلپمنٹ کے منصوبہ جات کے حوالے سے بریف کرتے رہے اور میری طرف اشارہ کرکے بولے؛ "ان کے ایکسین کی پراگرس کافی کمزور ہے۔ ڈائریکٹر صاحب آپ ضرور توجہ دیں۔" کمشنر مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر خاموش رہے مگر میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا؛ "سر! یہ دونوں حضرات اپنے نام کے برعکس ہیں؛ رانا سخاوت سے کسی سخاوت کی اور چوہدری شفقت سے کسی شفقت کی امید بے وقوفی ہے۔" کمشنر ہنس دئیے اور کہنے لگے؛ "شہزاد صاحب! آپ نے کیا گہری بات کر دی ہے۔" دونوں حضرات کھسیانے ہو گئے اور وہاں سے چلے گئے۔ اب کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ کمشنر نے زبردستی کھانا کھلا کر ہی جانے کی اجازت دی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: گاڑی نہ روکنے پر ڈکیتوں نے ایک اور زندگی چھین لی
رانا سخاوت سے ملاقات
اگلے روز اجلاس سے قبل رانا سخاوت سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کل والے فقرے کا گلہ کرتے کہا؛ "آپ نے اچھا نہیں کیا۔" میں نے جواب دیا؛ "ازراہ مذاق کی گئی بات کو سنجیدہ نہیں لیا کرتے۔" اجلاس شروع ہوا۔ ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ نے تعارفی کلمات کہے اور حسب روایت کہا؛ "پہلے بہاول پور ضلع سے آغاز کرتے ہیں۔ اوور ٹورانا سخاوت۔" حسب عادت اس نے بات شروع کی؛ "ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اپنی پراگرس بتائیں۔" میرے بولنے سے پہلے کمشنر بولے؛ "رانا صاحب مجھے بتائیں کہ کس کس محکمے کے پاس کتنے کتنے ترقیاتی فنڈز ہیں۔" انہوں نے بتایا سب سے زیادہ محکمہ شاہرات کے پاس ہیں پھر بلڈنگ اور پھر مقامی حکومت اور پھر۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: خیر پور ناتھن شاہ؛ ٹیچر کی چھٹی جماعت کی طالبہ سے شادی
پراگراس اور نتائج
سخاوت کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ایس ای ہائی ویز (سپرنٹندنٹ انجینئر) نے بریفنگ شروع کی تو سرے سے پراگرس نہ ہونے کے برابر تھی۔ فنڈز کی utilization اگر میرا حافظہ ساتھ دے رہا ہے تو شاید دس فی صد تھی۔ ایسا ہی حال ایس ای بلڈنگ کا تھا۔ کمشنر جو عموماً دھیمے طبعیت کے تھے گھنٹہ بھر ان دونوں افسروں کی کلاس لیتے رہے اور نزلہ سخاوت اور اشرف پر بھی گرتا رہا۔ ان کے مقابلے ہماری پراگرس تقریباً 28 فی صد کے قریب تھی۔ عامر نے کہا؛ "اگلی میٹنگ کے لئے میرا ٹارگٹ 45 فی صد ہو گا۔" ڈی سی او بہاول پور ڈاکٹر نعیم رؤف کہنے لگے؛ "سر! میں ایکسین لوکل گورنمنٹ کی بات نہیں مانتا جب تک ڈائریکٹر بلدیات یقین نہ دلائیں کہ پراگرس 45 فی صد ہو گی۔" میری یقین دھانی پر وہ مطمئن ہو گئے۔ کمشنر نے اجلاس ختم کرتے کہا؛ "رانا سخاوت! نوٹ کر لیں آئندہ میٹنگ انہی 2 محکموں کی بریفنگ سے شروع ہو گئی۔ فنڈز ان کے پاس زیادہ ہیں اور پراگرس بہت کم۔ آپ اور ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ فلیڈ وزٹ کے پروگرام بنائیں، مجھ سے منظوری لیں اور ڈائریکٹر بلدیات کی پیروی میں ہفتہ میں کم از کم 3 دن منصوبوں کا خود جائزہ لیں۔" (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








