یمن پر کن گروہوں کا کنٹرول ہے؟ سعودی عرب کے اماراتی مفادات پر حملے کے بعد وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
سعودی عرب کا فضائی حملہ
صنعاء (ڈیلی پاکستان آن لائن) یمن میں سعودی عرب نے ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور کامبیٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے جہازوں سے اتاری جا رہی تھیں۔ سعودی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا کہ یمن میں موجود بندرگاہ مكلا کو بیرونی فوجی امداد حاصل ہے جس کے خلاف محدود فضائی کارروائی کی گئی ہے۔ مکلا بندرگاہ پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یاد رکھیے اگر مگر، چاہیے اور کاش یہ سب “موجود لمحے” کو نظرانداز کرنے کے بہانے ہیں، مستقبل میں زندگی نیا رخ اختیار کرے گی.
یمن کی سیاسی صورتحال
الجزیرہ کے مطابق یمن ایک بار پھر شدید سیاسی اور عسکری تقسیم کا شکار ہے، جہاں ملک کے مختلف حصوں پر الگ الگ گروہوں کا کنٹرول قائم ہے۔ حالیہ دنوں میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی یمن کے آٹھ صوبوں میں کنٹرول مضبوط کر لیا ہے، جسے ماہرین یمن کی خانہ جنگی میں ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کا عملی کنٹرول صرف مارب اور تعز کے صوبوں تک محدود ہے۔
یمن کے سیاسی دھڑے
یمن اس وقت عملی طور پر تین بڑے سیاسی و عسکری دھڑوں میں منقسم ہے، جبکہ بعض علاقوں میں چھوٹے مسلح گروہ بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
1. سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی)
ایس ٹی سی کا قیام 11 مئی 2017 کو عمل میں آیا۔ یہ تحریک عدن میں اس وقت ابھری جب اس کے رہنما عیدروس الزبیدی کو گورنری سے ہٹایا گیا۔ بعد ازاں الزبیدی 26 رکنی کونسل کے سربراہ بنے اور اس وقت PLC کے رکن بھی ہیں۔ ایس ٹی سی کا واضح مقصد جنوبی یمن کی علیحدہ ریاست کا قیام ہے، جو 1967 سے 1990 تک شمالی یمن سے الگ تھی۔
متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی سے ایس ٹی سی نے اپنی نیم فوجی فورسز، جنہیں ابتدا میں سیکیورٹی بیلٹ کہا جاتا تھا، کو مضبوط کیا، جو اب مجموعی طور پر جنوبی مسلح افواج کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ایس ٹی سی نے وقتاً فوقتاً عدن سمیت جنوبی یمن کے کئی علاقوں میں خود مختار طرزِ حکومت کا اعلان کیا اور بدعنوانی اور ناقص حکمرانی کو اس کی وجہ قرار دیا۔
گزشتہ ہفتے ایس ٹی سی کی افواج نے تیل سے مالا مال صوبے حضرموت کے وسیع علاقوں پر دھاوا بولا، جہاں سیون میں صدارتی محل پر بھی قبضہ کیا گیا۔ ایس ٹی سی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سیکیورٹی کی بحالی اور مقامی وسائل کے استحصال کا خاتمہ ہے۔ سدرن ٹرانزیشنل کونسل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی یمن کے آٹھ صوبوں میں کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔
2. صدارتی قیادت کونسل (پی ایل سی)
پی ایل سی کا قیام 2022 میں اس وقت ہوا جب سابق صدر عبدربہ منصور ہادی نے اپنے اختیارات آٹھ رکنی کونسل کو منتقل کیے۔ اس کونسل کی قیادت رشاد العلیمی کر رہے ہیں، جو سابق وزیر داخلہ اور ہادی کے مشیر رہ چکے ہیں۔
پی ایل سی میں شمالی و جنوبی یمن کے مختلف سیاسی اور عسکری رہنما شامل ہیں، جن میں ایس ٹی سی بھی شامل ہے، تاہم اندرونی اختلافات کے باعث یہ کونسل اب تک مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
3. حوثی تحریک
انصار اللہ کے نام سے معروف حوثی گروہ، جسے ایران کی عسکری اور مالی حمایت حاصل ہے، شمالی اور شمال مغربی یمن کے کم از کم پانچ صوبوں پر قابض ہے، جن میں دارالحکومت صنعا بھی شامل ہے۔ حوثیوں نے 2014 میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی، جس کے نتیجے میں صدر ہادی کو دارالحکومت چھوڑنا پڑا اور ملک مکمل خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔
سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا عرب اتحاد بھی حوثیوں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ 2022 کے بعد اگرچہ جنگ بڑی حد تک جمود کا شکار ہے، تاہم جھڑپیں اور علاقائی تبدیلیاں بدستور جاری ہیں。








