یمن نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو کیسے کشیدہ کیا؟
یمن کی جنگ: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں تناؤ
صنعاء (ڈیلی پاکستان آن لائن) یمن کی جنگ نے وقت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ابتدا میں دونوں ممالک ایک ہی صفحے پر تھے، مگر بعد ازاں ان کے مفادات اور حکمتِ عملی میں واضح فرق پیدا ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: PTI Protest: 11 KP Police Officers in Civilian Clothes Arrested
متحدہ عرب امارات کی شمولیت
قطر کی حماد بن خلیفہ یونیورسٹی کے پبلک پالیسی کے پروفیسر سلطان برکات نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے 2014 میں صنعاء پر حوثیوں کے قبضے کے بعد سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کی، جس کا مقصد یمن میں حوثیوں کی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ دونوں اتحادیوں کے تعلقات زیادہ پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن میں سعودی فضائی حملے پر امارات کا رد عمل آگیا
آزاد خارجہ پالیسی کے فیصلے
سلطان برکات کے مطابق “آہستہ آہست یو اے ای نے یمن میں سعودی عرب سے مشاورت کے بغیر آزادانہ خارجہ پالیسی فیصلے کرنا شروع کر دیے۔ اس عمل نے کسی حد تک جنوبی یمن میں علیحدگی پسند قوتوں کو مضبوط کیا۔”
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے: بھارتی وزیر داخلہ
یمن کی تقسیم کی تاریخ
یاد رہے کہ یمن 1990 سے قبل دو الگ ممالک پر مشتمل تھا: یمن عرب جمہوریہ (شمالی یمن) اور پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن (جنوبی یمن)، جو بعد ازاں متحد ہو کر ایک ریاست بنے۔ حوثیوں کے صنعاء پر قبضے کے بعد جنوبی یمن میں علیحدگی کی تحریک نے دوبارہ زور پکڑا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 157000 پوائنٹس کا سنگ میل عبور
علیحدگی پسند قوتوں کا ابھار
برکات کا کہنا تھا کہ “کچھ حلقوں نے محسوس کیا کہ چونکہ دنیا، خاص طور پر سعودی عرب، صنعاء میں حکومت بحال کرانے میں ناکام رہا، اس لیے ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ خود اپنا راستہ اختیار کریں۔”
متحدہ عرب امارات کے مفادات
تجزیہ کار کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مفادات بنیادی طور پر بندرگاہوں اور سمندری راستوں کے کنٹرول سے جڑے ہوئے ہیں۔ “یو اے ای کی دلچسپی بندرگاہوں پر کنٹرول میں ہے، ضروری نہیں کہ ان کی ترقی کے لیے، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ خطے میں دبئی کی جبلِ علی بندرگاہ مرکزی حیثیت برقرار رکھے۔”








