عالمی سطح پر زرعی اجناس اور غذائی قلت پیدا ہو چکی، زرعی ماہرین کی نظریں چین، بھارت اور پاکستان پر لگی ہیں، پلاننگ کی ضرورت ہے۔
مصنف
رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: احتسابی اداروں اور سیاست میں آنے والے پیسے سے متعلق عوام کیا رائے رکھتے ہیں؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان این سی پی ایس 2025 کے مزید اہم نکات سامنے آ گئے۔
قسط
263
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی نا اہلی، حکومت اور اپوزیشن کے پارلیمانی مذاکرات آج
موضوع
”عام آدمی کی کفالت اور خوشحالی کیسے ممکن ہے“
یہ بھی پڑھیں: حکومت پاکستان کا پاسپورٹ ڈیزائن مکمل طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ
سیمینار کا پس منظر
4 اگست 2008ء سٹیزن کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ہمدرد ہال لٹن روڈ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف پلاننگ اینڈ ایویلوایشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب ڈاکٹر حامد جلیل نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ نصف صدی ایشیاء کے زرعی میدان میں پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس دوران پاکستان ایشیاء میں زرعی اجناس کا سب سے بڑا برآمدی ملک بن سکتا ہے۔ جس کے لیے سنجیدہ پلاننگ کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت نے 11 نئے دانش سکولوں کے قیام کا اعلان کردیا، کہاں بنائے جائیں گے؟
زرعی اجناس کی عالمی صورتحال
ڈاکٹر حامد جلیل نے اپنے خصوصی لیکچر میں بتایا کہ براعظم امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ زرعی اجناس اور فصلات سے بڑے پیمانے پر اتھنول اور بائیو ڈیزل تیار کرنے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر زرعی اجناس اور غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دنیا کے زرعی ماہرین کی نظریں چین، بھارت اور پاکستان پر لگی ہیں۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ چین اور بھارت اپنی کثرت آبادی کے سبب محدود کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان کسانوں کو سستی کھاد، بجلی، پانی مہیا کر کے اور جدید زرعی ٹیکنالوجی اپنا کر زرعی برآمدات میں ایشیائی لیڈر شپ کی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: باپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے 2 بھائی بھی بلوچستان میں دہشتگردی کا نشانہ بن گئے
دیہی معیشت میں خوشحالی کے امکانات
ڈاکٹر حامد جلیل نے کہا پاکستانی بھینسوں کی افزائش، پسماندہ علاقوں میں خواتین کی ڈیری ٹریننگ اور تعلیم سے دیہی معیشت میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ اجلاس میں صدر کونسل رانا امیر احمد خاں، ظفر علی راجا، انجینئر لیاقت ربانی، میجر صدیق ریحان، محمد رمضان میو، مہر صفدر علی اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ اکارڈا کے افرو ایشیاء ریجن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انجینئر اختر علی رانا نے بھی اظہار خیال کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ڈاکٹر حامد جلیل کی تجویز کو عملی جامع پہنا کر پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ ملکی صورتحال، یونیورسٹی آف نارووال 29 نومبر تک بند
بھٹہ مزدور بانڈڈ لیبر کے مسائل کا حل
بانڈڈ لیبریشن فرنٹ کے زیرِ اہتمام موضوع بالاپر منعقدہ 2 روزہ سیمینار میں سٹیزن کونسل پاکستان کی جانب سے بانڈڈ لیبر سسٹم ایکٹ (ریبولیشن) پاس کردہ 1992ء کو مزید مؤثر اور تیز رفتار بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی گئیں:
- اگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دفعہ 10 میں بیان کردہ فرائض سے کوتاہی کا مرتکب پایا جائے تو اس کی ترقی روک دی جائے یا پھر اسے انتظامی عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
- دفعہ 11 میں بیان کردہ جرمانے کی سزا میں کم از کم چار گنا اضافہ کیا جائے اور اسے 50 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کر دیا جائے۔
- دفعہ 12 کے تحت جبری مشقت کا عوضانہ 50 روپے یومیہ سے بڑھا کر 1200 روپے روزانہ کیا جائے۔ مزدور کی زیر قبضہ جائیداد کے مالی فوائد 10 روپے یومیہ کے بجائے کم از کم 100 روپے یومیہ کے حساب سے متعلقہ مزدور کو دلوائے جائیں۔
- دفعہ 15 میں ترمیم کی جائے اور ویجی لینس کمیٹی میں کسی ایسے عوامی نمائندے یا افسر کی شمولیت کو ممنوع قرار دیا جائے جو بھٹہ مالکان، جاگیر داروں یا بانڈڈ سسٹم سے متعلق افراد کا رشتہ دار ہو یا اِن کی سرپرستی حاصل ہونے کی شہرت رکھتا ہو۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








