اعلیٰ عدالتوں میں4 لاکھ مقدمات زیر التواء ، سپریم کورٹ میں تعداد 60 ہزار ،پاکستان کو آئینی عدالت کی ضرورت کیوں۔۔۔؟ اہم تفصیلات جانیے

```html
آئینی عدالت کی ضرورت
کراچی (نیوز ڈیسک) ناقدین کے دعوے کے برعکس آئینی عدالت ریاست کے ایک ستون کے طور پر عدلیہ کی حیثیت کو تباہ نہیں کرے گی، اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً 4 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 60 ہزار کے قریب ہے۔ ایک آزاد آئینی عدالت عدالتوں پر آنے والے آئینی معاملات کا بوجھ نمٹائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ہم دونوں ہی میدان میں تھے اور جہاز سے فرلانگ بھر دور نکل آئے تھے، ایک ساتھ ہی ہمت ہاری تھی، اسکا سانس اکھڑ گیا تھا،حواس ساتھ چھوڑ گئے
بیرسٹر مرتضی وہاب کی رائے
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے "پاکستان کو آئینی عدالت کی ضرورت کیوں؟" کے عنوان سے بلاگ لکھا ہے۔ "جنگ" میں شائع ہونے والے بلاگ میں انہوں نے اہم تفصیلات شیئر کی ہیں، اور لکھا کہ آئینی ترمیم اور آئینی گفتگو پر ہماری روایتی نعرہ بازی کی ٹائمنگ دیکھتے ہوئے ایک آئینی عدالت کے قیام کے قانونی فوائد کا قبل از وقت جائزہ لینا یقیناً آسان ہے۔ ایسا ادارہ بلاشبہ پاکستان کے موجودہ جوڈیشل اداروں کے دیرینہ مسائل کو حل کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری کی علالت، صدر کا خصوصی طیارہ ایک ہفتہ انتظار کے بعد اسلام آباد چلا گیا
عدلیہ کی مضبوطی
ناقدین کے دعوے کے برعکس آئینی عدالت ریاست کے ایک ستون کے طور پر عدلیہ کی حیثیت کو تباہ نہیں کرے گی، بلکہ یہ اس کی حیثیت کو مزید تقویت دے گی، جیسا کہ دنیا کے کئی ایک عدالتی نظاموں میں ہوا ہے۔ آئین کی تشریح، جو کہ آئینی عدالت کا کام ہے، قانون ساز اور ایگزیکٹو کے اختیارات کو حد سے تجاوز کرنے سے روکتی ہے اور اس عمل سے ہمیشہ عدلیہ مضبوط ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی کے مقدمات میں عمر سرفراز چیمہ اور اعجاز چودھری کی ضمانتیں مسترد
التواء کا مسئلہ
لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی 2023 کے دوسرے نصف کیلئے شائع کردہ جوڈیشل اعدادوشمار کی ششماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً 4 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 60 ہزار کے قریب ہے۔ ایک آزاد آئینی عدالت آئینی معاملات کا بوجھ نمٹائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ التواء کا بوجھ آئینی معاملات کی تعداد کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے ہے کہ آئینی مسائل حل کرنے کیلئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سنتھ جے سوریا کو سری لنکن ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا
صوبائی حدود کی وضاحت
اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر صوبوں اور وفاق کے اختیارات اور آئینی حدود کے تعین کا بے پناہ بوجھ پڑ گیا ہے۔ ضروری ہے کہ آئین کے نفاذ اور اس کی شقوں کی وضاحت کو کسی الجھائو میں نہ رہنے دیا جائے اور ان مسائل کو آئین کی روح کے مطابق حل کیا جائے۔ آئینی ماہرین پر مشتمل ایک آئینی عدالت آئینی معاملات پر فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری لائے گی اور تمام صوبوں میں قانون کا نفاذ یکسانیت اور یقینی پن لائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا پاکستانی پائلٹ پکڑنے کا دعویٰ ، پاکستان کی تردید
جمہوری میثاق اور بین الاقوامی مثالیں
آئینی عدالت کا قیام ایک اجنبی اور نیا تصور لگتا ہے۔ یہ پاکستان پر اچانک زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ میثاق جمہوریت میں تجویز کے طور پر گزشتہ 18 سال سے جمہوری ایجنڈے پر موجود تھا۔ آئینی عدالتیں اپنے متعدد دائرہ اختیار کے ساتھ کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں موجود ہیں۔
مستقبل کی سمت
بلاگ کے آخر میں بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے لکھا کہ آئینی عدالت ہماری موجودہ عدلیہ کے دائرے سے باہر نہیں ہو گی، بلکہ اس کے اندر رہے گی اور ریاست کے ایک ستون کے طور پر اپنا اختیار رکھے گی۔ درحقیقت ایسا کرنے سے عدلیہ کا ادارہ مضبوط ہو گا اور ریاست کے ایک آزاد ستون کے طور پر اس کی حیثیت مزید بہتر ہوگی۔
پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ایک آئینی عدالت کی صورت صوبائی طور پر متوازن عدالتی نظام بنانا چاہتے ہیں جس میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہو۔
```