پاکستان نے غلطیاں کیں، نئے پروگرام پر کامیاب عملدرآمد کیلئے مضبوط پالیسیاں ناگزیر ہیں: نمائندہ آئی ایم ایف

پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کی نئی تشویش
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی نمائندہ ایشتر پیریز نے کہا ہے کہ پاکستان نے پالیسیوں میں غلطیاں کیں اور نئے قرض پروگرام پر کامیاب عملدرآمد کے لئے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب میں 2تنظیموں کی شمولیت
مضبوط پالیسیوں کی ضرورت
ایس ڈی پی آئی کے زیر انتظام تقریب سے خطاب میں ایشتر پیریز نے کہا کہ نئے قرض پروگرام کے کامیاب عملدرآمد کے لئے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے گا، نئے پروگرام کے تحت زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کے تعین میں حکومتی کنٹرول ختم کیا جائے گا جبکہ ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز سے ٹیکس آمدنی کو بڑھایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: میٹرو بس لاہور نشئیوں کے نشانے پر، انتظامیہ خاموش
سماجی تحفظ اور مؤثر ٹیکس نظام
نمائندہ آئی ایم ایف نے کہا کہ سماجی شعبے کو تحفظ دیتے ہوئے ایک بہتر اور زیادہ موثر ٹیکس نظام بنانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا مقصد نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کو فروغ دینا ہے، سٹرکچرل اصلاحات کے ذریعے توانائی کی قیمتوں کو کم کرنا پروگرام کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طاقتور سمندری طوفان کی تشکیل کا طریقہ کیا ہے؟
پچھلے چیلنجز اور مستقبل کی حکمت عملی
ایشتر پیریز کا کہنا تھا کہ پچھلے سالوں میں استحکام کے باوجود سٹرکچرل چیلنجز کا سامنا رہا۔ پاکستان نے پالیسیوں میں غلطیاں کیں، ہر پروگرام کا مقصد پالیسیوں کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انرجی سیکٹر اور انڈسٹریل پالیسیز مقامی مارکیٹ کو سپورٹ کرتی ہیں، اور جب کسی خاص طبقے کو خصوصی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیشی ماڈل سفارتی تعلقات خطرے میں ڈالنے کے الزام میں گرفتار
آئی ایم ایف کا غیر سیاسی کردار
ایک سوال کے جواب میں نمائندہ آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر طرح سے پاکستان کی مدد کی کوشش کی ہے۔ ہم سیاست سے دور رہتے ہیں، ہمارا مقصد صرف پالیسیوں اور معیشت کو دیکھنا ہوتا ہے۔
ٹیکس کے نظام کی اہمیت
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نظام کسی بھی ملک کے لئے اہم ہوتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پر ہم کوئی سوال نہیں کر رہے اور نہ ہی ریورس کررہے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک اہم عنصر ہے جس پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا۔