ہاتھوں پر زخم اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد: کراچی پولیس نے ایک ہی گھر کی چار خواتین کے قاتل تک کیسے پہنچائی؟
نوٹ: اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں
کراچی کے ایک گنجان آباد رہائشی علاقے کے ایک فلیٹ سے پولیس کو اطلاع ملی کہ وہاں چار خواتین کی لاشیں ہیں جنھیں بظاہر تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔ ایک کمرے میں خاتون کی لاش کے قریب بیڈ کے نیچے ان کی تین ماہ کی بیٹی زندہ تھی۔
ایک پولیس اہلکار کے مطابق ’یہ ایک انتہائی بھیانک واردات تھی جس میں خواتین کے گلے بے رحمانہ طریقے سے کاٹے گئے۔ کمروں، ٹی وی لانج اور صحن میں خون ہی خون تھا۔‘
پولیس سرجن ڈاکٹر سُمعیہ طارق کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان چاروں خواتین کی گردن پر گہرے زخم آئے ہیں اور ان کے جسموں پر مزاحمت کے کچھ نشان بھی ہیں۔
ڈاکٹر سُمعیہ طارق کا کہنا تھا کہ لاشوں کے ابتدائی معائنے سے یہ پتا چلنا ممکن نہیں کہ انھیں کوئی نشہ آور چیز دی گئی تاہم ان کے خون سمیت دیگر نمونوں کے جائزے سے رپورٹ مرتب کی جائے گی۔
ادھر کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے چار خواتین کے قتل کے ملزم کا سراغ لگا لیا ہے جو کوئی اور نہیں بلکہ ان خواتین کا قریبی رشتہ دار اور خاندان کے سربراہ کا بیٹا ہے۔
’دروازہ کھولا تو میری بیٹی خون میں لت پت پڑی تھی‘
مقدمے کے مدعی اور گھر کے سربراہ محمد فاروق کا کہنا ہے کہ اِن چار مقتولین میں ان کی بیوی شمشاد، بیٹی مدیحہ، بہو عائشہ اور 12 سالہ نواسی علینہ شامل ہیں۔
مقدمے کے متن کے مطابق محمد فاروق جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ اس گھر میں ان کے علاوہ ان کی 60 سالہ بیوی شمشاد، بیٹی مدیحہ، بیٹا سمیر علی، ان کی 22 سالہ بیوی عائشہ اور تین ماہ کی نواسی رہتے تھے۔
محمد فاروق کا کہنا ہے کہ وہ 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب قریب دس بجے کھانا کھا کر گھر سے باہر چلے گئے تھے۔ ’رات ایک بجے میری ایک اور شادی شدہ بیٹی ثمینہ کی کال آئی اور اس نے کہا کہ میں اسے اس کے گھر چھوڑ آؤں۔ ثمینہ رہائشی عمارت سے نیچے آئی اور میں اسے چھوڑنے چلا گیا تھا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’بیٹی نے راستے میں بتایا میرا بیٹا بلال (جو الگ رہتا ہے) بھی گھر آیا ہوا ہے۔‘
انھوں نے اپنی بیٹی کو ان کے گھر چھوڑا اور واپسی پر ’نواب مہابت خانجی روڈ پر دیکھا کہ وہاں میرے بیٹے بلال کی گاڑی خراب کھڑی تھی اور اس کے پاس میرا بیٹا سمیر علی موجود تھا۔ میں وہاں پر کچھ دیر رُکا تو بیٹے سمیر علی نے کہا کہ میں گھر جاؤں۔‘
مقدمے کے متن کے مطابق محمد فاروق رات سوا تین کے قریب گھر واپس پہنچے۔ ’دروازے پر دستک دینے کے باوجود کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو اپنے پاس موجود چابی سے دروازہ کھول کر اندر گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری بیٹی مدیحہ کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی۔۔۔ میں نے اپنے بیٹے سمیر علی کو بھی فون کیا کہ جلدی گھر آؤ۔‘
محمد فاروق کے بقول ان کے پڑوسی اور بیٹے نے ان کے ہمراہ گھر میں داخل ہو کر دیکھا کہ ’میری بہو عائشہ بھی اپنے کمرے میں خون میں لت پت پڑی تھی اور اس کی تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے تھی۔
’ٹی وی لانج میں میری بیوی شمشاد اور صحن میں نواسی علینہ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ چاروں کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹے گئے تھے۔‘
ان کے بیٹے نے اس دوران ریسکیو سروسز اور پولیس کو اطلاع دی جس پر پولیس موقع پر پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی بیماری کیا ہے اور کیا اس کا علاج صرف امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے؟
’ماں نے اپنی بچی کو قتل کیے جانے سے قبل چھپایا ہوگا‘
موقع پر پہنچنے والے ایک پولیس اہلکار نے Uses in Urdu کو بتایا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی بھیانک واردات ہے جس میں خواتین کے گلے بے رحمانہ طریقے سے کاٹے گئے۔ کمروں، ٹی وی لانج اور صحن میں خون ہی خون تھا۔‘
ان کے مطابق ایک مقتولہ کی لاش انھی کے کمرے میں موجود تھی جبکہ ان کی تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے زندہ تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ مقتولہ عائشہ (گھر کے سربراہ کی بہو) نے مزاحمت کی کوشش کی۔ وہ ممکنہ طور پر اِدھر اُدھر دوڑتی رہی ہوں گی۔ شاید ملزم یا ملزمان عائشہ کو قتل کرنے سے قبل کسی اور کو پہلے قتل کرنے گئے تھے جس پر خاتون خبردار ہوگئی تھیں۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق تین ماہ کی کم عمر بچی بیڈ کے نیچے سے بر آمد ہوئی اور اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔
موقع پر موجود پولیس افسران اور فرانزک ٹیم کی یہی رائے ہے خاتون کو ’پتا چل گیا تھا کہ ملزم اس کو قتل کرے گا تو اس نے موقع دیکھ کر اپنی تین ماہ کی بچی کو بیڈ کے نیچے چھپا دیا تھا۔‘
اگرچہ ایک پولیس اہلکار کے مطابق یہ بھی عین ممکن ہے کہ ملزم یا ملزمان کا ہدف تین ماہ کی بچی نہ ہو مگر ’بچی بیڈ کے نیچے سے بر آمد ہوئی ہے جس کو مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ماں نے اپنی بچی کی زندگی بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہوگا۔‘
پولیس کے مطابق اس وقت یہ تین ماہ کی بچی اس کے والد سمیر علی کے حوالے کر دی گئی ہے۔
پولیس اہلکار کے مطابق ایک اور کم عمر بچی علینہ کی لاش صحن سے ملی ہے۔ اس کے بارے میں موقع پر موجود افسران اور فرانزک ٹیم کے ارکان کی رائے ہے کہ یہ بچی اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے قتل ہوئی۔ ’(ممکن ہے) اس کو ملزم نے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے صحن میں قابو کر کے قتل کیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے میڈیا ڈائریکٹر اور اہلخانہ سے لوٹ مار کا مقدمہ 24 گھنٹے بعد درج
قتل کی وجوہات
کراچی سٹی پولیس کے ایس ایس پی عارف عزیز کا کہنا ہے کہ پولیس نے سارے واقعے کی تفتیش جدید سائنسی خطوط پر کی جس میں چھوٹے بڑے تمام شواہد، واقعات کا جائزہ لیا گیا جس میں بڑا بیٹا ہی ملزم ثابت ہوا تھا اور بےرحمانہ قتل کے اس واقعے کی کئی وجوہات ہیں۔
عارف عزیز کے مطابق زیرِ حراست ملزم سے ابتدائی تفتیش سے علم ہوا ہے کہ اس واقعے کی وجہ ملزم کی دوسری شادی کی خواہش اور جائیداد حاصل کرنا تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم دوسری شادی کرنا چاہتا تھا جبکہ اس کے خاندان کے لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ تھے جس پر اس نے اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم طلاق یافتہ تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کی پہلی شادی کے طلاق پر منتج ہونے کی وجہ اس کے گھر والے، سوتیلی والدہ، بہنیں اور بھابھی تھیں۔
پولیس کے مطابق اس اقدام کی ایک اور بڑی وجہ جائیداد بھی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران علم ہوا کہ ملزم اپنے والد کے ساتھ رہائش پذیر نہیں تھا اور اکثر یہ مطالبہ کیا کرتا تھا کہ والد کا گھر اس کے نام کردیا جائے مگر اس کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم جس لڑکی سے دوسری شادی کرنا چاہتا تھا، اس کے خاندان والوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر اس کے پاس اپنا گھر ہوگا تو وہ رشتہ دیں گے۔
پولیس کے مطابق ملزم بلال کا خیال تھا کہ وہ گھر والوں کو راستے سے ہٹا کر مکان کا مالک بن جائے گا، جس کے بعد اس کی دوسری شادی کی راہ میں بھی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔
پولیس ملزم تک کیسے پہنچی
پولیس کے تفتیش کاروں کے مطابق اس امر نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا کہ مکان کا دروازہ اندر سے بند تھا تو پھر کس نے قتل کیا، جس کے بعد لازمی طور پر ہر وہ شخص شک کی زد میں آیا جس کے پاس مکان کی چاپی تھی۔
ایس ایس پی عارف عزیز کے مطابق ’تفتیش کے دوران ایسے تمام افراد کے بیانات حاصل کیے گئے جن کا بغور جائزہ لیا گیا تو پتہ چلتا گیا کہ ملزم کے بیانات میں بڑے تضادات سامنے آ رہے ہیں۔‘
عارف عزیز نے کہا کہ 'یہ بھی دیکھا گیا کہ بلال فاروق کے ہاتھوں اور انگلیوں پر خراشیں اور چھوٹے زخمی نشانات موجود تھے۔ جب پولیس نے ان نشانات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو اس نے جھوٹ بولا کہ یہ شیشے لگنے کی وجہ سے ہیں۔'
عارف عزیز کا دعویٰ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد کی بنیاد پر بلال پر شک مزید مستحکم ہوگیا، اور جب دوران تفتیش اس کے ارد گرد گھیرا تنگ ہوا تو ملزم نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔
عارف عزیز نے یہ بھی کہا کہ ملزم سے آلۂ قتل اور犯罪 کے وقت پہنے ہوئے خون آلود لباس بھی برآمد کر لیا گیا، جس کی شناخت ملزم نے خود کی۔
انہوں نے کہا کہ 'ملزم کافی عرصے سے اس منصوبے پر کام کر رہا تھا اور اس مقصد کے لئے اس نے 12 دن پہلے ایک چاقو خریدا تھا۔'
عارف عزیز کا کہنا تھا کہ 'بلال اپنے والد کے مکان کا رخ طویل عرصے بعد کرتا تھا، مگر چاقو خریدنے کے بعد وہ تقریباً روز ہی آنے لگا۔ واقعے کے دن بھی اس نے بہت ہوشیاری سے منصوبہ بنایا۔ اس روز اس کی بڑی بہن گھر آئی ہوئی تھی، جس نے رات کو اس سے کہا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے تو اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ والد سے کہو کہ چھوڑ دیں۔'
پولیس تفتیش کاروں کے مطابق، ملزم نے اپنے بھائی سمیر علی کو گھر سے دور رکھنے کے لئے اپنی گاڑی ایک جگہ خراب کرکے کھڑی کی اور اس کے بعد سمیر کو کہا کہ جا کر گاڑی کو دیکھ لے۔
پولیس کے مطابق، ملزم کو آئندہ 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔