آئینی عدالت اور ججوں کی عمر و تعیناتی: 26ویں آئینی ترامیم کے مجوزہ مسودے کیا ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے حالیہ دنوں میں 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے عوامی سطح پر شیئر کیے گئے ہیں، اور اب اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کا مسودہ بھی سامنے آ گیا ہے۔
اس مسودے میں مسلم لیگ ن آئینی عدالت کی تشکیل کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس کی جگہ سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے۔
حکومتی جماعت کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس آئینی بینچ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوگی اور یہ بینچ آئین سے متعلق کسی بھی معاملے کی سماعت کرے گا۔
یہ مجوزہ مسودہ وزارت قانون میں تیار کیا گیا ہے جس میں ملک کے متعدد آئینی ماہرین سے اس بارے میں رائے لی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے آئینی عدالت کی تشکیل کی بات کی تھی جبکہ حزب مخالف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ نے آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ کی تجویز دی تھی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے سامنے آنے والے مجوزہ مسودوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم زیادہ تر عدلیہ اور اس کے اختیارات سے ہی متعلق ہے، جس میں نئی آئینی عدالت کی تشکیل سے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی اور سپریم کورٹ کے اختیارات سے متعلق سفارشات شامل ہیں۔
آئینی عدالت سے متعلق مجوزہ ترامیم میں کیا کہا گیا؟
پاکستان پیپلز پارٹی آئینی عدالت کی تشکیل کے حق میں ہے اور اس ضمن میں اس کا یہ مؤقف ہے کہ سنہ 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت معاہدے میں یہ درج تھا کہ ملک میں آئینی عدالت قائم ہونی چاہیے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف ایک نئی آئینی عدالت تشکیل دینے کی بجائے سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ تشکیل دینے کی بات کرتی ہے۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے مجوزہ مسودے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پی پی پی وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے اور انھوں نے اس ضمن میں تجویز بھی دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مطابق وفاق کی سطح پر قائم ہونے والی اس آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے دیگر ججز کی تعیناتی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے عمل میں لائی جائے۔
مسلم لیگ ن کے مسودے میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے، جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سینئر چار ججز سمیت چار ارکان پارلیمنٹ بھی ہوں گے جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔
اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے، جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینٹ سے ہوگا۔
اس مسودے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں سینئر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔
اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہی سمجھا جائے گا۔
اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی۔
حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔
حکومتی مسودے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔
اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔
اس مجوزہ ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ کسی ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے تو وہ یہ مقدمہ کسی دوسری ہائی کورٹ میں بھی منتقل کرسکتی ہے۔
حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے سربراہ کی ہدایت کے خلاف کوئی بھی رکن پارلیمان اگر ووٹ ڈالے گا تو اس کا ووٹ ضرور گنا جائے گا تاہم اس کو ڈی سیٹ کرنے کے حوالے سے پارٹی کے سربراہ کو قانونی اقدام اٹھانے کی اجازت ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے مطابق آئینی ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ فی الوقت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کے ناموں کی سفارش کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی صرف ربر سٹیمپ کے طور پر کام کرتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں الزام عائد کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پارلیمان کو دباؤ میں لا کر 19ویں آئینی ترمیم کروائی تھی جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا اور اس میں پارلیمانی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
جمعت علمائے اسلام نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے جو تجاویز دی ہیں ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 243 میں شق 5 کا اضافہ کیا جائے اور مجوزہ ترمیم کے تحت سروسز چیفس کی تعیناتی، دوبارہ تقرری، سروس میں توسیع اور برطرفی مسلح افواج سے متعلقہ قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔ جے یو آئی کے مسودے کے مطابق ایک بار تعیناتی، دوبارہ تقرری یا سروس میں توسیع کے بعد تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جب تک یہ معاملہ خصوصی کمیٹی میں نہ جائے اور وہاں ڈسکس نہ ہو۔
جے یو آئی ف کی تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سروسز چیفس کی تقرری یا تعیناتی کے بعد تبدیلی سے متعلق معاملے پر دونوں ایوانوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہو۔ یہ کمیٹی چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جائے گی اور کمیٹی اپنی سفارشات صدر مملکت کو ارسال کرے گی۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے مجوزہ مسودوں میں مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
جے یو آئی کی تجاویز میں یکم جنوری 2028 سے تمام اقسام کے سود کے خاتمے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور اس ضمن میں چاروں صوبائی اور دونوں ایوانوں میں متعارف ہونے والی کسی بھی قانون سازی کی اسلامی نظریاتی کونسل سے منظوری لازمی قرار دی گئی ہے۔
جے یو آئی نے تجویز دی ہے کہ ملک میں اسلامی مانیٹری پالیسی سسٹم متعارف کرایاجائے، ساتھ ہی 19ویں ترمیم کے مکمل خاتمے اور 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی کی تجویز بھی دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے آئینی عدالت کے ججز کو ہٹانے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 209 میں تبدیلی کرنے کی تجویز دی ہے اور پارٹی کے مطابق وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں کے ججوں کو ہٹانے کے لیے سپریم آئینی کونسل کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ان تجاویز کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا اور کسی بھی فورم پر اس کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افسوس کی بات، چین کی یقین دہانی کے باوجود کراچی واقعہ – وزیراعظم
’حکومت ترمیم پر اتفاق رائے سے آگے چلنا چاہتی ہے‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر ظفر اللہ نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں پرنسلز (رہنما أصول) مرتب کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت نے پہلے ہی اپنے مجوزہ پوائنٹس تمام پارلیمانی جماعتوں کے سامنے رکھے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس دوران یہ بالکل مدنظر رکھا گیا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس پر اپنی سفارشات اور تحفظات پیش کریں گی مگر آئینی روح کے مطابق یہی طریقہ کار ہر آئینی ترمیم کے موقع پر اپنایا جاتا ہے۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ حکومت اس ترمیم پر اتفاق رائے سے آگے چلنا چاہتی ہے اور اس کے لیے تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو دعوت دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ڈرافٹ یا مسودہ لا ڈویژن بناتا ہے جس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے اور اس کو بنانا اور سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔
اس معاملے پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے پاس قانوں سازی کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ بھی پارلیمان کو قانون سازی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں آئینی عدالت کی تشکیل کے حق میں ہیں تاکہ آئینی نوعیت کے معاملات کو اسی عدالت میں ہی سُنا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ سنیارٹی کا معاملہ چیف جسٹس کی تعیناتی میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگر ہائی کورٹس میں چیف جسٹس کی تعیناتی میں سنیارٹی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی اس عمل کو دہرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر 26 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا نقطہ بے وقعت ہو جائے گا۔
’حکومت کے پاس آئینی ترمیم لانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا‘
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جس طرح کے چیلنجز موجوہ حکمراں اتحاد کو اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مل رہے تھے، اُن حالات میں حکومت کے پاس آئینی ترمیم لانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جس طرح کچھ عرصے سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سیاسی نوعیت کے فیصلے دے رہی ہیں اس سے ناصرف حکومت بلکہ جو یہ نظام لے کر آئے ہیں انھیں بھی چیلنجز کا سامنا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ جس طرح مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے اور اگر الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد کر دیتا تو شاید آج ملک کے حالات مختلف ہوتے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس آئینی ترمیم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تھا اور حکومت کو بھی پی ٹی آئی کی تجاویز پر غور کرنا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی مقبول جماعت ہے لیکن اس جماعت کی قیادت کی طرف سے حالیہ کچھ فیصلوں سے ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان، جن کی جیل میں موجودگی اس جماعت کی مضبوطی سمجھی جاتی تھی، اب اس کی کمزوری بن گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بظاہر اعلیٰ عدلیہ میں ہمدردی کے باوجود تحریک انصاف عدالتی فیصلوں سے استفادہ حاصل نہیں کر سکی۔‘ پی ٹی آئی کی اس معاملے سے دوری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو اسے اس نوعیت کے اہم آئینی معاملات سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرنا ہو گا۔‘
دوسری جانب پاکستان میں وکلا برادری کے ایک دھڑے نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی اس آئینی ترمیم کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔
وکلا کے اس دھڑے کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما حامد خان کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے ہم خیال وکلا بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ وزارت قانون کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پاکستان بار کونسل کو بھیجا گیا تھا اور اس ضمن میں ان کی تنظیم نے اس مسودے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس میں کچھ تبدیلیاں بھی تجویز کی ہیں۔