سٹیج: دیہاتوں کا نیٹ فلکس، وہ بھارتی اسٹارٹ اپ جو نئی فلم انڈسٹری کو جنم دے رہا ہے
انڈیا کی شمال مغربی ریاست ہریانہ کے چھوٹے چھوٹے دیہات، جن کے بارے میں انڈیا کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے، اب فلموں میں نظر آ رہے ہیں۔
صنعتوں کا گڑھ کہلائے جانے والے شہر روہتک کے گرد و نواح میں واقع کسانوں کے گھروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ یہ گھر کسانوں اور ان کے خاندانوں کو چھت فراہم کرنے کے علاوہ اب فلموں کے سیٹ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
ان دیہاتوں میں اب گائے بھینسوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ہدایت کاروں کی ’لائیٹس، کیمرہ، ایکشن‘ کی آوازیں سنائی دینا اب عام سی بات ہو گئی ہے۔
دیہاتوں کی دنیا کو شوبز کا حصہ بنانے کے پیچھے ’سٹیج‘ نامی ایک چھوٹی سی کمپنی کا بھی ہاتھ ہے۔ اور اب اس کمپنی کے کام کی وجہ سے ایک نئی فلم انڈسٹری اُبھر کر سامنے آ رہی ہے۔
’سٹیج‘ کے شریک بانی وِنے سنگھل نے Uses in Urdu کو بتایا کہ روہتک جیسے شہر میں فی الوقت چھ فلموں پر کام چل رہا ہے۔
’ہمارے آنے سے پہلے شاید انڈیا کی تاریخ میں ہریانوی زبان میں محض ایک درجن فلمیں بنی ہوں گی۔ تاہم 2019 سے لے کر اب تک ہم ہریانوی زبان میں 200 سے زیادہ فلمیں بنا چکے ہیں۔‘
ایک سال قبل ’سٹیج‘ کے بانی وِنے سنگھل اپنے دیگر شریک بانیوں کے ساتھ ریئلٹی شو ’شارک ٹینک انڈیا‘ میں نظر آئے تھے۔
اُن کا سٹارٹ اپ ایسی فلمیں بناتا ہے جو ناصرف دیہاتوں میں فلمائی جائیں بلکہ اُن میں زبان بھی وہی استعمال ہو جو وہاں کے رہائشی بولتے ہیں۔ اُن کا ٹارگٹ غیر مراعت یافتہ علاقوں میں بسنے والے ناظرین ہیں۔
فلموں کا مواد سامعین کے ذوق، ثقافت اور روایات کو مدِنظر رکھ کر تخلیق کیا جاتا ہے۔ اُن میں مقامی زبان اور علاقے کے خاص الفاظ اور تلفظ کا دھیان رکھا جاتا ہے۔
وِنے سنگھل نے بتایا کہ انڈیا میں ساڑھے 19 ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے 18 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد اتنی ہے کہ ان زبانوں کی اپنی الگ الگ فلم انڈسٹری قائم کی جا سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ’سٹیج‘ کی موبائل ایپ پر ہریانوی اور راجستھانی زبان میں مواد موجود ہے۔ ایپ کے 30 لاکھ سبسکرائبرز ہیں جو ایپ استعمال کرنے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔
’سٹیج‘ ایپ پر عنقریب میتھلی اور کونکنی زبان میں بھی مواد ریلیز کیا جائے گا۔ میتھلی زبان انڈیا کے شمال مشرق میں بولی جاتی ہے جبکہ کونکنی ملک کے مغرب میں واقع ساحلی علاقوں کی زبان ہے۔
وِنے سنگھل نے بتایا کہ ’عنقریب ہمیں امریکہ کے ایک وینچر کیپیٹلسٹ فرم سے سرمایہ ملنے والا ہے جس سے ہم سٹیج کا دائرہ کار بڑھا کر دیگر علاقوں کے رہائشیوں کے لیے بھی فلمیں بنائیں گے۔‘
سٹیج اُن انڈین سٹارٹ اپس میں شامل ہے جو رفتہ رفتہ دیہاتوں میں بسنے والی عوام کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ان سٹارٹ اپس میں ’ایگرو سٹار‘ (Agrostar) اور ’دیہات‘ (DeHaat) نامی کمپنیاں شامل ہیں۔
انڈیا کی 1.4 ارب کی آبادی کی ایک بڑی تعداد 6 لاکھ 50 ہزار دیہاتوں میں آباد ہیں۔ تاہم ان علاقوں پر اب تک ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس نے کچھ خاص توجہ نہیں دی ہے۔
ایکسل وینچرز سے منسلک آنند ڈینیئل کا کہنا ہے کہ انڈیا ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ ’یہاں سٹارٹ اپس شروع کرنے کے لیے بہترین مواقع ہیں۔ یہاں سے ایسے ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس بھی نکلے ہیں جن کی قدر اب ایک ارب ڈالر ہو گی۔ تاہم ان سٹارٹ اپس نے شہروں میں مقیم رہائشیوں کی ’ٹاپ 10 فیصد‘ عوام کے لیے اپنے پروڈکٹس اور سروسز تخلیق کی ہیں۔‘
ایکسل وینچرز نے انڈیا کی کامیاب ترین سٹارٹ اپس جیسے فلِپ کارٹ، سوئگی اور اربن کمپنی میں سرمایا کاری کی ہے۔
اگرچہ ایک آدھ ٹیکنالوجی سٹارٹ اپ جیسے آن لائن خرید و فروخت کے لیے ’میشو‘ اور کھیتوں میں ٹیکنا لوجی کا استعمال کرنے والی کچھ کمپنیاں موجود ہیں، لیکن زیادہ تر سٹارٹ اپس نے دیہاتوں کو نظر انداز ہی کیا ہے۔
مگر اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ سٹارٹ اپس کے بانی دیہاتوں میں مقیم لوگوں کی دلچسپیاں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انھیں اپنے سٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ مل سکے۔
’سٹیج‘ کے وِنے سنگھل بتاتے ہیں کہ ’اب سرمایہ کار آپ کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے۔ پانچ سال قبل مجھے سٹیج کے لیے کسی نے پیسے نہیں دیے۔ مجھے خود اپنی کمپنی کھڑی کرنی پڑی تھی۔‘
ایکسل وینچرز کے مطابق انھوں نے خود اِن سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری بڑھا دی ہے جو دیہات میں رہنے والے لوگوں کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھ کر کام کریں گے۔ حال ہی میں کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ دیہاتوں میں کام کرنے والی سٹارٹ اپس کے لیے ایک پروگرام کے تحت دس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
ایکسل وینچرز جیسی ایک اور کمپنی ’یونیکورن انڈیا وینچرز‘ کا کہنا ہے کہ اُن کی 50 فیصد سرمایہ کاری اب ان ہی سٹارٹ اپس میں ہوتی ہے جو ’ٹیئر 2‘ اور ’ٹیئر 3‘ شہروں میں کام کر رہی ہیں۔ ’ٹیئر 2‘ ان شہروں کو کہا جاتا ہے جن کی آبادی 50 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے جبکہ ’ٹیئر 3‘ شہر کی آبادی 20 ہزار سے 50 ہزار کے درمیان ہے۔
رواں سال جولائی میں جاپانی آٹو کمپنی سوزوکی نے انڈیا میں دیہی علاقوں میں کام کرنے والے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کے لیے 4 کروڑ ڈالرز مالیت کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔
تاہم دیہی علاقوں کے لیے کام کرنے والی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ایکسل وینچرز کے آنند ڈینیئل نے بتایا کہ دیہاتوں میں بزنس کے لیے بہت مواقع موجود ہیں جن کا فائدہ ابھی تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔
’سرمایہ کاروں اور سٹارٹ اپس کے بانیوں کو یہ سمجھ آ رہا ہے کہ اگر کوئی دیہات میں رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ضرورت مند بھی ہو۔‘
ایکسل وینچرز کے مطابق، بھارت کی آبادی کا دو تہائی حصہ دیہاتی علاقوں میں آباد ہے، جو ہر سال 500 ارب ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔ اس آبادی کا ٹاپ 20 فیصد، شہروں میں رہنے والے 50 فیصد لوگوں سے زیادہ پیسے خرچ کرتا ہے۔
ایکسل وینچرز کے آنند ڈینیئل نے کہا کہ ‘رواں دہائی میں بھارت کی جی ڈی پی میں چار کھرب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔ اس میں کم از کم پانچ فیصد مدد ڈیجیٹل انڈسٹری کی جانب سے حاصل ہو گی، جو کہ بھارت کے دیہی علاقوں سے آئے گی۔‘
یہ کمپنیوں کو 200 ارب ڈالر تک کی کمائی کا موقع فراہم کرے گا، جس کی وجہ دیہی گھرانوں میں سمارٹ فونز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
دیہاتوں سے دور رہنے والے تقریباً 45 کروڑ بھارتی عوام سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں، جو کہ امریکہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ ڈیجیٹل پیمنٹ کی آسانی کی بدولت، ان سب کمپنیوں کو فائدہ پہنچا ہے جو اپنی مصنوعات کو بڑے شہروں تک محدود رکھنے سے گریز کر کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ڈینیئل کا کہنا ہے کہ پانچ سے سات سال پہلے اس مارکیٹ تک رسائی کا کوئی تصور نہیں کرتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ آج سٹارٹ اپس کے پاس پہلے سے بہتر مواقع موجود ہیں کہ وہ اس مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکیں۔
ایک دہائی قبل تک، ممبئی اور بنگلورو جیسے شہر جدت کے مراکز سمجھے جاتے تھے، لیکن اب نسبتاً چھوٹے قصبوں سے پہلے سے کہیں زیادہ سٹارٹ اپس ابھر رہے ہیں۔
پرائم وینچرز کی رپورٹ کے مطابق، اس کی وجہ وہاں کاروبار کرنے کی کم لاگت، ٹیلنٹ کی دستیابی اور حکومتی اقدامات ہیں جو کہ چھوٹے شہروں میں کاروبار کے رجحان کو فروغ دے رہے ہیں۔
ان سٹارٹ اپس کے مالکان چونکہ خود بھی ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے شاید وہ اس مارکیٹ کے بارے میں بہتر طریقے سے جان پاتے ہیں۔
تاہم، دیہی بھارت تک رسائی اتنی بھی آسان نہیں ہے۔
چھوٹے قصبوں سے تعلق رکھنے والے صارفین کے لیے نہ صرف مصنوعات یا سروس کی قیمت اہمیت رکھتی ہے بلکہ ان کی اکثریت دور دراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔
گوتم ملک فرنٹیئر مارکیٹ نامی سٹارٹ اپ میں چیف ریوینیو افسر ہیں۔ ان کا سٹارٹ اپ پانچ ہزار سے بھی کم آبادی والے دیہاتوں میں سامان کی ڈیلوری کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں انفراسٹرکچر کی حالت کافی خراب ہوتی ہے اور وہاں ڈیلیوری کرنا آسان کام نہیں۔
گوتم کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ جو فارمولا شہر میں کام کرتا ہے وہ دیہاتوں میں بھی کام کرے۔
ان کی کمپنی کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ روایتی ای کامرس دیہاتوں میں بڑے پیمانے پر کیوں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے بیشتر صارف کسی ایسے کمپنی پر آسانی سے بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے جس کی مقامی سطح پر نمائندگی نہ ہو۔
بالآخر مقامی افراد کا بھروسہ حاصل کرنے کے لیے گوتم کی کمپنی کو گاؤں کی خواتین کو اپنا سیلز اور ڈیلیوری ایجنٹ بنانا پڑا۔
گوتم کہتے ہیں کہ دو سو ارب ڈالر کی دیہی انڈیا کی مارکیٹ تک رسائی اور اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے ہی منفرد اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔