کیا واقعی چینی سائنس دان نے دو بچیوں کے ڈی این اے سے چھیڑچھاڑ کی؟
جینیاتی ترمیم: ایچ آئی وی کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کی کوشش
چینی سائنسدان ہی جیانکوی نے 2018 میں اعلان کیا کہ انہوں نے دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کی ہے تاکہ انہیں ایچ آئی وی (HIV) سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس تجربے میں انہوں نے CRISPR-Cas9 ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جو جینیاتی انجینئرنگ کی ایک جدید تکنیک ہے اور اس کے ذریعے ڈی این اے میں مخصوص جینز کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہی جیانکوی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بچیوں کے ڈی این اے میں ایک مخصوص جین کو غیر فعال کیا ہے جو ایچ آئی وی وائرس کو جسم کے خلیوں میں داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یہ تجربہ سائنسی دنیا کے لیے ایک انقلابی قدم تھا، مگر اس نے بڑے پیمانے پر تنازعات اور تنقید کو جنم دیا۔ سائنسدانوں اور اخلاقی ماہرین نے اس تجربے کی سخت مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی جینوم میں مداخلت سے ممکنہ طور پر نہ صرف ان بچیوں کی صحت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی اس کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ، جینیاتی انجینئرنگ میں ایسی تبدیلیاں کرنے کے طویل مدتی اثرات ابھی پوری طرح سے سمجھے نہیں جا سکے ہیں، اس لیے یہ ایک خطرناک اقدام تھا۔
چینی حکومت کا فوری ایکشن اور ہی جیانکوی کی سزا
عوام اور ماہرین کی تنقید کے بعد چینی حکومت نے اس تجربے پر فوری ایکشن لیا۔ ہی جیانکوی کو غیر قانونی طبی تجربات کا مجرم قرار دیتے ہوئے قید کی سزا دی گئی اور ان پر تمام تر سائنسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ انسانی جینوم میں اس طرح کی مداخلت نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ اسے بغیر مکمل تحقیق کے کرنے سے غیر متوقع نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں جینیاتی انجینئرنگ کے حوالے سے ضوابط کو مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس نے ایک وسیع بحث کو جنم دیا کہ انسانی جینوم میں مداخلت کرتے وقت اخلاقی اور قانونی اصولوں کو کیسے مدنظر رکھا جائے۔ اس واقعے نے یہ واضح کیا کہ جدید سائنس کے میدان میں آگے بڑھتے وقت نہ صرف تکنیکی ترقی پر توجہ دینی چاہیے بلکہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔