50 سال بعد چرائے گئے 37 روپے سود کے ساتھ واپس کرنے والے شخص: ’انسانیت اب بھی زندہ ہے‘
انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے ایک کاروباری شخص نے 1970 کی دہائی میں 37 روپے چوری کیے تھے، جنہیں انہوں نے 50 سال کے بعد واپس کرنے کا دلچسپ فیصلہ کیا۔
لیکن یہ واقعہ کیا ہے؟ اس کہانی کی تفصیلات جاننے کے لئے 50 سال پیچھے سری لنکا کے ایک چائے کے باغ میں جانا ہوگا۔
1970 کی دہائی کے وسط میں رنجیت کم عمر اور مالی طور پر کمزور تھے۔ اس زمانے میں وہ سری لنکا کے نوارا الیا ضلع کے ایک چائے کے باغ کے قریب رہتے تھے۔
ایک دن اسی باغ میں مزدوری کرنے والے ایک جوڑے نے انہیں اپنے گھر کے سامان اٹھانے کے لئے بلایا کیونکہ وہ ایک نئے گھر میں منتقل ہو رہے تھے۔
رنجیت نے بتایا کہ سامان اٹھاتے ہوئے انہیں ایک بستر پر پڑے تکیے کے نیچے پیسے نظر آئے۔ یہ 37 روپے 50 پیسے کی رقم تھی، جو آج کے دور میں تو معمولی لگتی ہے، لیکن 1970 کی دہائی میں رنجیت کے لئے ایک بڑی رقم تھی۔
رنجیت نے بغیر کسی کو بتائے وہ پیسے رکھ لئے۔ کچھ عرصے بعد، جنہوں نے اپنا سامان رنجیت سے اٹھوایا تھا، انہیں یاد آیا کہ ان کے تکیے کے نیچے پیسے پڑے تھے۔ انہوں نے رنجیت سے پوچھا، مگر اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس وقت کسی مزدور کے لئے بھی 37 روپے ایک بڑی رقم ہوتی تھی۔
رنجیت کے والدین بھی چائے کے باغات میں کام کرتے تھے۔ ان کا ایک بڑا خاندان تھا، لیکن غربت کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک سکول نہیں جا سکے۔
1977 میں 17 سال کی عمر میں رنجیت نے انڈیا کے تمل ناڈو منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہیں یاد ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی زندگی بدلنا شروع ہوئی۔
پہلے انہوں نے ایک دکان کھولی، لیکن نقصان کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں صفائی کا کام کرنا شروع کیا۔ کافی عرصے تک وہ دیہاڑی پر کام کرتے رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھانا پکانا بھی سیکھتے رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جلد ہی کھانا پکانے میں ماہر ہو گئے اور پھر انہوں نے ایک چھوٹی سی کیٹرنگ کمپنی قائم کی۔
یہ کمپنی وقت کے ساتھ ترقی کرتی رہی اور آج ان کی کمپنی میں 125 ملازمین کام کر رہے ہیں۔
لوٹے ہوئے پیسے لوٹانے کا فیصلہ
رنجیت کی صحت بگڑی تو انھوں نے اسی دوران بائبل کا مطالعہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پڑھا کہ ’مکار شخص اپنا قرضہ واپس نہیں کرتا، لیکن نیک شخص اسے لوٹاتا ہے۔‘ اس جملے نے ان پر گہرا اثر مرتب کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب بھی انھوں نے کسی سے ادھار لیا تو انھوں نے پیسے واپس کیے۔ لیکن انھیں اندر ہی اندر وہ 37 روپے بھی یاد آ رہے تھے جو انھوں نے چرائے تھے۔
انھوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے اس جوڑے کے ورثا کی تلاش شروع کر دی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ وہ میاں بیوی اب زندہ نہیں رہے۔
اس جوڑے کے چھ بچے تھے، تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ ایک بیٹے کی موت ہو چکی تھی جبکہ ایک پالانیادھی کولمبو جبکہ دوسرا بیٹا کرشن نوارا الیا میں ہی رہتا تھا۔
رنجیت نے ان دونوں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے والدین سے لیا جانے والا ایک قرض لوٹانا چاہتے ہیں۔
رواں برس 21 اگست کو رنجیت سری لنکا گئے اور ایک ریسٹورنٹ میں ان سے ملاقات کی۔ یہاں انھوں نے 1970 میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا اور حساب کرنے کے بعد 70 ہزار روپے کی رقم ورثا کو لوٹا دی۔
پالانیادھی اور کرشن سکتے میں تھے۔ ان کے لیے یہ بہت ہی حیران کن تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ رقم ان کے لیے بڑی مدد ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ چوری کا ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا۔
پالانیادھی نے بتایا کہ جب وہ 12 سال کے تھے تو ان کے والدین کولمبو منتقل ہو گئے تھے۔ ’شاید میری ماں کو بھی نہیں پتہ تھا۔‘
ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ’میں تو اپنی دادی سے کبھی ملی بھی نہیں۔ اتنے برس بعد ان کی وجہ سے ہمیں اتنے پیسے مل گئے۔ لگتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’سری لنکا میں بہت مہنگائی ہے اور معاشی حالات مشکل ہیں۔ یہ پیسے بہت مدد دیں گے۔‘
کرشن نے اپنے چاروں بچوں میں 100 ہزار روپے تقسیم کیے۔
رنجیت کہتے ہیں کہ وہ اس جوڑے کی ایک بیٹی تک بھی پیسے پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ رقم لوٹا کر بہت خوش ہیں۔