کراچی میں چینی قافلے پر حملے کی ‘ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار’ خاتون کی گرفتاری
پاکستان کے صوبے سندھ کے محکمہِ انسداد دہشت گردی نے کہا ہے کہ کراچی ایئر پورٹ کے قریب چینی شہریوں کے قافلے پر بم حملے کے 'ماسٹر مائنڈ' اور 'ایک سہولت کار خاتون' کو حراست میں لیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق، گذشتہ ماہ چھ اکتوبر کی رات 11 بجے بیرون ملک سے آنے والے چینی قافلے پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خودکش حملہ کیا گیا تھا، جس میں دو چینی باشندے اور ایک پاکستانی شہری ہلاک اور 21 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کی وجہ سے قافلے میں شامل گاڑیوں سمیت کئی اور گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا اور ان میں آگ لگ گئی تھی۔
پیر کو صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار نے آئی جی غلام نبی میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ خودکش بمبار کی شناخت ان کے ہاتھ سے کی گئی جو گاڑی کے گیئر ہینڈل سے ملی۔ سندھ پولیس نے کراچی میں تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ دیگر کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق حملے میں '70 سے 80 کلو گرام بارود' استعمال ہوا جو ایک گاڑی میں موجود تھا۔ وزیر داخلہ کے مطابق اس حملے کے لیے ایک سفید کیمیل آر ڈی ایکس کے ساتھ استعمال کیا گیا جو 'دوسری عالمی جنگ میں بھی استعمال ہوا تھا۔ دھماکہ خیز مواد بمپر اور سائیڈ کے دروازوں میں نصب کیا گیا تھا۔'
یاد رہے کہ حملے کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔ اس کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی کراچی میں درج کیا گیا اور اس کی تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں قومی سلامتی کے دوسرے اداروں سمیت اعلیٰ انٹیلی جنس اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
خودکش حملہ آور کی شناخت کیسے ہوئی اور منصوبے پر کیسے عملدرآمد ہوا؟
محکمہِ انسداد دہشت گردی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ 10 نومبر کی رات انٹیلی جنس آپریشن کے دوران چینی باشندوں پر کیے گئے خودکش حملے کے 'ماسٹر مائنڈ جاوید عرف سمیع عرف سمیر اور خاتون گل نسا کو کراچی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔'
بیان کے مطابق 'یہ دونوں حب سے کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ گرفتار دہشتگرد جاوید کا اس خودکش دھماکے میں براہ راست ملوث ہونا پایا گیا ہے جبکہ گرفتار خاتون نے سہولت کاری کی تھی۔ ان کے تیسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔'
اس معاملے میں کی جانے والی تحقیقات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے فوری طور پر جدید تقاضوں کے مطابق تفتیش کا آغاز کیا اور چشم دید گواہان کی مدد سے خودکش حملہ آور کے دیگر دو ساتھیوں کے خاکے تیار کیے۔
بیان کے مطابق 'جائے وقوعہ کا بغور معائنہ کر کے شہادتیں حاصل کی گئیں جن کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھایا گیا۔'
بیان میں بتایا گیا کہ 'جائے وقوعہ سے کچھ فاصلہ پر پڑا ہوا خودکش حملہ آور کا کٹا ہوا جسم اور ایک ہاتھ پایا گیا جس کے فنگر پرنٹ سے اس کی شناخت شاہ فہد کے نام سے ہوئی۔'
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق 'مزید تفتیش کے دوران خودکش بمبار کی گاڑی کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو پایا گیا کہ خودکش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کراچی کے ایک شو روم سے ستمبر 2024 میں 71 لاکھ روپے کیش پر خریدی گئی تھی۔ اور خودکش حملہ آور کے نام پر ٹرانسفر کی گئی تھی۔ گاڑی کی خریداری کے لیے کیش رقم جب ضلع بلوچستان کے ایک نجی بینک کے ذریعہ کیش ٹرانسفر کی گئی تھی۔'
حملے اور اس کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات سے یہ سامنے آیا ہے کہ 'خودکش حملہ آور اسی گاڑی میں سوار ہو کر ایک خاتون کے ہمراہ چار اکتوبر کو کراچی پہنچا تھا اور صدر کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔'
محکمۂ انسداد دہشت گردی کے بیان کے مطابق 'چھ اکتوبر کو حملہ آور نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور اپنے دیگر ساتھیوں کو جیل چورنگی کے قریب سے دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں سوار کیا اور ایئر پورٹ کا چکر لگا کر میریٹ ہوٹل کے سامنے واقع پارک میں آگئے۔
'یہاں سے انھوں نے گاڑی میں بیٹھ کر خودکش حملہ آور کی آخری ویڈیو بذریعہ موبائل ریکارڈ کر کے اپنے بی ایل اے کمانڈر کو بھیج دی۔'
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 'حملہ آور کا ایک ساتھی رات تقریباً ساڑھے نو بجے کراچی ایئر پورٹ میں پیدل داخل ہوا اور جب چینی قافلہ کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکل رہا تھا تو اس نے باہر موجود حملہ آور کو فون پر اطلاع دی۔
'خودکش حملہ آور کا دوسرا ساتھی پہلے ہی گاڑی سے اتر کر جا چکا تھا اور جب چینی باشندوں کا قافلہ ایئر پورٹ سے نکل کر کچھ فاصلے پر پہنچا تو خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی ان کے قریب لے جا کر دھماکہ کر دیا۔'
تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ انھوں نے دوران تفتیش پایا کہ 'دہشتگردوں کا یہ نیٹ ورک بلوچستان اور دیگر ممالک میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی کر رہا ہے جس کو پاکستان دشمن قوتوں کی مدد بھی حاصل ہے۔'
محکمۂ انسداد دہشت گردی کے مطابق گرفتار دہشتگردوں نے دوران تفتیش انتہائی اہم انکشافات کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نوشہرہ میں زہریلی شراپ پینے سے 6 افراد ہلاک
کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی قافلے پر حملہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
'ہم سٹار گیٹ پر واقع اپنے سینٹر میں موجود تھے کہ پونے گیارہ بجے کے قریب دھماکے کی آواز سنی گئی جس پر ہم فوری پہلے پرانے ٹرمینل پر گئے جہاں کچھ نہیں تھا، اس کے بعد جب جناح ٹرمینل کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں میں بہت افراتفری تھی اور جب آگے بڑھے تو دیکھا گاڑیوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔'
محمد شفیق فلاحی ادارے ایدھی کے رضاکار ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو گزشتہ رات کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں پہنچے تھے۔
محمد شفیق نے Uses in Urdu کو بتایا کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گاڑیوں میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کے مطابق اس آگ کو بجھانے میں دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے جس کے بعد انھوں نے پہلے مرحلے میں زخمیوں کو نکال کر جناح ہسپتال اور قریبی نجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ ان کے مطابق اس کے بعد جائے وقوعہ سے تین لاشیں نکالی گئیں جن میں سے دو چینی شہریوں کی تھیں جو ساؤتھ سٹی ہسپتال منتقل کی گئیں جبکہ تیسری لاش ایک گاڑی سے آخر میں نکالی گئی جو ٹکڑوں میں تھی اور ناقابل شناخت تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: کلفٹن میں غیر ملکی باشندے لٹ گئے
’دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی‘
دھماکے کے مقام سے 500 میٹر دور شاہراہ فیصل پر واقع اپارٹمنٹس کے ایک دکاندار ذاکر خان نے بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا اُس وقت علاقے میں بجلی گئی ہوئی تھی اور وہ اپنی دکان کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی، پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے، کوئی ٹائر پھٹا ہے یا کچھ اور ہوا ہے، اس کے بعد آس پاس کی عمارتوں سے بھی لوگ نیچے اُتر آئے۔ اس کے بعد خبریں آئیں کہ دھماکہ ہوا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ عام طور پر یہ علاقہ پُرامن ہے جہاں سکیورٹی بھی سخت رہتی ہے۔
واضح رہے کہ جس مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک پولیس چوکی بھی قائم ہے جبکہ کچھ ہی فاصلے پر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کا سکیورٹی ٹاور بھی ہے۔
ایئرپورٹ کے داخلی راستے سے شاہراہ فیصل جانے کے لیے عموماً یہ سڑک استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے بالکل سامنے کی ایک سڑک ملیر کینٹ کی طرف جاتی ہے۔
جناح ایئرپورٹ کا یہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شامل ہے۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں ایئرپورٹ کے اندر حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فیفا نے نئی رینکنگ جاری کردی، ارجنٹائن کی بادشاہت برقرار
چینی قونصل خانے کی مذمت
اس واقعے کے بعد پاکستان میں چینی سفارتخانے اور قونصلیٹ جنرل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ چھ اکتوبر کو رات 11 بجے کے قریب پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے چینی عملے کو لانے والے ایک قافلے پر کیے گئے حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی شہری زخمی ہوا ہے۔
چینی قونصل خانے نے اپنے بیان میں شدت پسند حملے کی مذمت کی تھی اور دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس کے بعد کا لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چینی قونصل خانے نے بتایا گیا تھا کہ ان کی جانب سے فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان لانچ کر دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔
یہ بھی پڑھیں: حامد میر کی آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نہایت دلچسپ رائے
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دفترِ خارجہ کا ردِعمل
اس واقعے کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم شہbaz شریف نے کہا تھا کہ انھیں گذشتہ رات کراچی ایئرپورٹ کے قریب قافلے پر ہونے والے حملے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت پر گہرا صدمہ اور دکھ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'میں اس گھناؤنے عمل کی مذمت کرتا ہوں اور چینی رہنماؤں اور باشندوں سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس بھیانک حملے میں ملوث افراد پاکستانی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس بارے میں فوری تحقیقات جاری ہیں تاکہ ان کی شناخت کرتے ہوئے انھیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔'
انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے چینی دوستوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہے، ہم ان کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان چینی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور واقعے پر چینی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی پاکستان اور چین کی پائیدار دوستی پر حملہ ہے، سکیورٹی فورسز دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، حملے میں ملوث افراد کو ضرور سزا ملے گی۔
ترجمان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انقلابی چی گویرا کارکنان کو چھوڑ کر اچانک غائب: عظمیٰ بخاری
پاکستان میں چینی باشندوں کو کب کب نشانہ بنایا گیا ہے؟
پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
کراچی میں 2017 سے یہ چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے، یہ حملے زیادہ تر بلوچ اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، پاکستان میں 2015 میں سی پیک کے منصوبے کے آغاز کے بعد بلوچ اور سندھی قوم پرستوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔
سنہ 2017 سے چینی شہریوں پر حملوں کی ابتدا ہوئی اور اب تک سی پیک سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل، رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے کو داسو ڈیم کی طرف جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجنیئر ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر ملک میں چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
رواں سال جون میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی اور اس اجلاس کے اعلامیے میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس سے قبل جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔
حملے کے بعد بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور ایک بیان میں حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق حملہ آور کی شناخت شاہ فہد عرف آفتاب بتائی گئی ہے۔
بی ایل اے کیسے بنی اور اس کا مجید بریگیڈ کیا ہے؟
اس سال میں بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے متعدد ہلاکت خیز حملے کیے گئے ہیں۔ 26 اگست کو بلوچستان کے علاقے بیلہ میں سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے دروازے پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرانے سے آپریشن ھیروف کا آغاز ہوا تھا جس میں کم از کم 39 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
جبکہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا جا چکا تھا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔
سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا۔ بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی کے دوران بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔
مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی، جس کا نام بھی مجید رکھا گیا۔ انہوں نے بعد میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ایک مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔
بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر 'مجید بریگیڈ' رکھا۔