17 سرنگیں بنائی گئیں، اس ہیبت ناک، ویران اور گرم علاقے میں ہیضہ اور طاعون کی وبا پھوٹ پڑی، 2ہزار کے قریب مزدوروں کی موت ہوگئی۔

مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 193
یہ بھی پڑھیں: ہانیہ عامر کی ہم شکل پاکستانی لڑکی کے چرچے
منصوبے کی تکمیل
اس منصوبے کو وقت پر مکمل کرنے کے لیے مختلف ٹیمیں بیک وقت کئی مورچے سنبھالے ہوئے تھیں اور ایک ہی وقت میں مختلف سرنگوں میں کام ہورہا تھا۔ ساتھ ساتھ انجینئر پْل بھی بنواتے جاتے تھے۔ پٹری آہستگی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کام کی رفتار روہڑی سے سبی آنے والی پٹری کے مقابلے میں بہت ہی سست تھی۔ سخت موسمی حالات میں کام کرنے سے اکثر مزدور بیمار یا ہلاک ہو جاتے تھے۔ اس پٹری کی تعمیر کے دوران ہی اس ہیبت ناک، ویران اور بے تحاشہ گرم علاقے میں ہیضہ اور طاعون کی وبا پھوٹ نکلی جس سے 2 ہزار کے قریب مزدوروں کی موت واقع ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہم سب مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے، حافظ نعیم الرحمان نے حکومت کو ’’اہم مشورہ‘‘ دیدیا
سرنگوں کی تعمیر
سبی سے کوئٹہ اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے کوئی چھوٹی بڑی 17 سرنگیں بنائی گئی تھیں۔ ان کی شناخت کے لیے ان کو نمبر الاٹ کر کے اسیسرنگ کے دہانے کی دیوار پر کندہ کر دیا جاتا تھا، جس میں کوئٹہ چمن لائن پر بنائی گئی چار سرنگیں شامل نہیں ہیں۔ سبی سے باہر نکلتے ہی سرنگوں کی بھرمار شروع ہو جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مسلسل تیسرے روز بھی سونے کی قیمت کم ہو گئی
سرنگوں کی تفصیلات
ویسے تو ساری ہی سرنگیں تقریباً ایک ہی وقت میں تعمیر ہوئی تھیں، لیکن ان میں سے چند ایک کو نمبروں کے ساتھ ساتھ مخصوص نام بھی دیدیے گئے تھے اور اب ان کو نمبروں سے زیادہ ناموں سے جانا جاتا تھا، جبکہ کتابوں میں اس کی شناخت ایک نمبر کے ہی طور پر ہوتی تھی۔ نمبروں کا یہ تسلسل سبی کی طرف سے شروع کیا گیا تھا کیونکہ ریل کی یہ پٹری اسی طرف سے بچھتی ہوئی آ رہی تھی۔ آئیے ان سرنگوں کے بارے میں مختصراً بات کرتے ہیں:
سرنگ نمبر 1 - 2
سبی اسٹیشن سے نکلتے ہی یکے بعد دیگرے یہ دو سرنگیں سامنے آجاتی ہیں۔ بس بیچ میں ایک خشک اور مردہ سا دریا لیٹا ہوا ہے، جو بارش میں زندہ ہو جاتا ہے۔ پہلی سرنگ عبور کرتے ہی پْل آتا ہے جس کے فوراً بعد سرنگ نمبر 2 آجاتی ہے۔
سرنگ نمبر 3 - 4
تھوڑا آگے چل کر ایک بار پھر آگے پیچھے دو سرنگیں آتی ہیں، جن میں بظاہر کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے جو ان کو ممتاز بنائے، دونوں بس عام اور بے آباد سی چھوٹی سرنگیں ہیں اور گاڑی چند سیکنڈوں میں وہاں سے گزر جاتی ہے۔
سرنگ نمبر 5
تاہم جیسے ہی چوتھی سرنگ سے گزر کر مشکاف دریا کا پْل عبور کرکے پانچویں سرنگ کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ ایک انتہائی شاندار منظر ہوتا ہے۔ اس پہاڑی کی ہئیت ایسی ہے کہ دور سے دیکھنے پر یہ ایک بہت بڑی اور مضبوط قلعہ نما عمارت نظر آتی ہے، جس کے دونوں اطراف بہت بلند دیواریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔
اس قلعہ نما پہاڑی کے عین وسط میں سے جب یہ سرنگ نظر آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ قلعے کا دروازہ استقبال کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس کی موجودگی کو مزید چار چاند لگانے کیلیے ایک دریا اس کے بالکل قدموں میں بہتا ہے، جس میں تھوڑا بہت پانی بھی موجود ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے اس کے کناروں پر ہری بھری جھاڑیاں اور کہیں کہیں گھاس بھی نظر آتی ہے۔ جو اس لق و دق پہاڑی سلسلے میں آنکھوں کو بڑی تراوٹ بخشتی ہے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔