آج کس منہ سے پیپلز پارٹی کا دم چھلّا بنے ہوئے ہیں، ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والے یہ لوٹے مسلم لیگ کے نام پر سیاہ دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں

مصنف کی معلومات
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 122
یہ بھی پڑھیں: ربیکا خان کا منگیتر حسین ترین سے جلد شادی کا عندیہ
اجلاس کی تفصیلات
1993ء میں پنجاب مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم کا ایک تنظیمی اجلاس زیرِ صدارت چیف آرگنائزر محمد زمان قریشی کراچی شہداء ہال لاہور ہائی کورٹ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں چودھری محمد فاروق (سابق اٹارنی جنرل پاکستان)، محمد سعید انصاری (سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار)، رانا محمد سرور (سابق جج لاہور ہائی کورٹ)، سی ایم لطیف راں، سید فیاض حسین قادری، محمد شریف چوہان، مشتاق علی طاہر خیلی، رانا امیر احمد خاں، الٰہی بخش وجدانی، محمد اقبال، محمد اشتیاق چودھری اور چودھری بشیر احمد کمبوہ نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کا دورہ
اجلاس کی اہم گفتگو
مقررین نے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کی یکجہتی، سلامتی اور تعمیر و ترقی کا ایک نشان قرار دیا۔ مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم کی تنظیم نو کے لئے محمد زمان قریشی کی بطور چیف آرگنائزر انتخاب کو قائدین نے سراہا اور انہیں اپنے تعاون کا پورا یقین دلایا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 28 مئی کو عام تعطیل کا اعلان
سرکیٹری کی حیثیت سے اقدامات
بطور سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم پنجاب، میں نے پنجاب بار کونسل کے تمام مسلم لیگی منتخب ممبران کو خط تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی وابستگی قابل قدر ہے۔ ممبران بار کونسل پنجاب منتخب ہونے پر انہیں مرکزی اور صوبائی قیادت کی طرف سے دلی مبارک باد پیش کی گئی اور اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کو ملک و قوم کے بہترین مفاد کے لئے کماحقہ استعمال کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیورو کریسی میں مایوسی اور بے چینی۔۔؟ حیران کن تفصیلات سامنے آ گئیں
انتخابی تاریخ
1988ء سے لے کر 1997ء کے تقریباً 10 برسوں میں 4 انتخابات کا انعقاد ہوا جو 1988ء، 1990ء، 1993ء اور فروری 1997ء میں تھے۔ ان انتخابات میں دیگر پارٹیوں کے کمزور ہونے کی باعث پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان لڑائی ہوئی۔ دائیں بازو کے حلقوں کی پارٹیوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا جبکہ بائیں بازو کے حلقے پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: دالوں اور دیگر اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 20 سے 60 روپے تک کمی کا نوٹیفکیشن جاری
آگے کی صورت حال
1993ء کے انتخابات میں اگرچہ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ کے مقابلے میں 11 لاکھ ووٹ کم ملے تھے لیکن ان کو قومی اسمبلی اور پنجاب و سندھ میں زیادہ سیٹیں ملنے کی بنا پر مرکز میں بے نظیر حکومت قائم ہوئی۔ پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں چٹھہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی کولیشن حکومت نے اقتدار سنبھال لیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق فیصلہ ہوگیا
تنقید کا پہلو
مسلم لیگ وکلاء فورم (ن) پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے، میں نے چٹھہ مسلم لیگ کے صدر حامد ناصر چٹھہ، سیکرٹری جنرل اقبال احمد خاں، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو اور سردار آصف احمد علی کے سیاسی کردار پر شدید تنقید کی۔ انہیں موقع پرستانہ، خود غرضانہ، منافقانہ اور دوغلے سیاسی کردار کا حامل قرار دیا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔