برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے باقاعدہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا

پالیسن کی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے مشترکہ بیان میں باقاعدہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تینوں ممالک نے اس اقدام کو دو ریاستی حل کی کوششوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی کے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچنے والے سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ کی وزیر اعظم سے ملاقات
کینیڈا کی وزیر اعظم کارنی کا بیان
کینیڈا کے وزیر اعظم کارنی نے اپنے بیان میں کہا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت منظم انداز میں اس امکان کو ختم کرنے پر کام کر رہی ہے کہ کبھی فلسطینی ریاست قائم ہو سکے۔ ان کے مطابق اسرائیل نے مغربی کنارے میں غیر قانونی طور پر بستیاں بسانے کی پالیسی اپنائی ہے، جو بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے، جبکہ غزہ میں اس کے مسلسل حملوں نے ہزاروں عام شہریوں کو ہلاک کیا، دس لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا اور ایک خوفناک اور قابلِ گریز قحط کو جنم دیا جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ سناکشی نے شوہر سے طلاق کی پیشگوئی کرنے والے صارف کو کرارا جواب دیدیا
کینیڈا کا اقدام
وزیر اعظم کارنی نے کہا کہ اب یہ موجودہ اسرائیلی حکومت کی کھلی پالیسی ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست قائم نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں کینیڈا نے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فلسطین کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ایک پرامن مستقبل کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کرتا ہے، جس میں ریاستِ فلسطین اور ریاستِ اسرائیل دونوں شامل ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا یہ اقدام ایک بین الاقوامی ہم آہنگ کوشش کے تحت کر رہا ہے تاکہ دو ریاستی حل کے امکان کو باقی رکھا جا سکے۔ ان کے مطابق اگرچہ یہ تسلیم کرنا تمام مسائل کا حل نہیں ہے، لیکن یہ قدم اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج حقِ خود ارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کے عین مطابق ہے اور کینیڈا کی دہائیوں پرانی مستقل پالیسی سے ہم آہنگ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ پیچھے ہٹا، وہاں جو قیامت بپا ہوئی وہ دیکھنے کے قابل تھی
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا بیان
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا کہ برطانیہ نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکیوں کے پیشِ نظر یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ امن اور دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھا جا سکے، جہاں اسرائیل محفوظ اور پرامن ہو اور فلسطین ایک قابلِ عمل ریاست کے طور پر ابھرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس اقدام کا مقصد کسی طور بھی حماس کو نوازنا نہیں ہے، کیونکہ حماس کا مستقبل میں حکومت یا سلامتی کے نظام میں کوئی کردار نہیں ہو سکتا۔ اسٹارمر نے کہا کہ انہوں نے ہدایت دی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں حماس کی مزید شخصیات پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
غزہ میں انسانی بحران
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں انسانی بحران روز بہ روز گہرا ہوتا جا رہا ہے، اسرائیلی حکومت کی مسلسل اور بڑھتی ہوئی بمباری، بھوک اور تباہی ناقابلِ برداشت ہیں۔ ان کے مطابق حماس کے اقدامات، اسرائیلی حکومت کے بڑھتے ہوئے حملے اور مغربی کنارے میں تیزی سے بستیاں تعمیر کرنے کی پالیسی کے باعث دو ریاستی حل کی امید مدھم پڑ رہی ہے، مگر اس امید کے چراغ کو بجھنے نہیں دینا چاہیے۔