1. دو دہائیوں کی رفاقت میں کبھی غلط بیانی کی نہ جھوٹ بولا، کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کے درخواست کی کاپی دیتے کہا ”اکیلے میں راجہ صاحب کو دینا“
مصنف کی شناسائی
شہزاد احمد حمید
قسط: 330
یہ بھی پڑھیں: روسی بحریہ کے پاس جدید ترین ایٹمی ہتھیار، پیوٹن نے مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کردیا
بھروسہ اور اعتماد
صاحب مجھ پر بڑا اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے اور میں نے بھی تب سے آج تک کی 2 دہائیوں سے زیادہ کی رفاقت میں نہ کبھی ان سے غلط بیانی کی اور نہ ہی جھوٹ بولا۔ بڑا پن صاحب کا ہی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کامسیٹس یونیورسٹی اور نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے درمیان سٹریٹیجک شراکت داری قائم
پہلا واقعہ
دو واقعات یاد آ گئے۔ ایک روز بڑے بھائی خالد فاروق (یہ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ تھے) نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور retiring room لے گئے اور کہنے لگے؛ "آپ کے خلاف درخواست آئی ہے۔ آپ کو پتہ ہے؟" میں نے جواب دیا: "نہیں۔" انہوں نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کے اس درخواست کی کاپی مجھے دی اور کہا؛ "اکیلے میں راجہ صاحب کو دینا۔" درخواست میں کچھ ایسے الزامات تھے: "یہ شخص شرابی اور بدکار ہے۔ ٹی ایم او کی بھرتی میں کروڑوں روپے کمائے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔"
یہ بھی پڑھیں: عام انتخابات میں ووٹ چرائے، 100 سے زیادہ نشستوں پر ہیرا پھیری کی گئی: رہول گاندھی کا دھماکہ خیز انکشاف، مودی کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک کر دیا
دفتر کی گفتگو
میں دفتر آیا۔ شام کو جب صاحب گھر جانے لگے تو میں نے ان سے کہا؛ "سر آپ سے علیٰحدگی میں بات کرنی ہے۔" وہ مجھے retiring room میں لے آئے اور میں نے وہ درخواست نکال کر انہیں دی۔ سرسری نظر ڈال کر بولے؛ "اس درخواست کو آئے تو دس پندرہ روز گزر چکے ہیں۔" ظہور کو بلایا اور اس سے اس درخواست کے بارے پوچھا۔ اس نے جواب دیا؛ "سر! یہ تو کئی دن پہلے آئی تھی۔ آپ نے مجھے مارک بھی کی لیکن بعد میں منگوا کر پھاڑ دی تھی۔" صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے؛ "شہزاد صاحب! 3 سال ہو گئے آپ کو میرے ساتھ کام کرتے، کیا یہ کوئی مجھے بتائے گا آپ کیسے ہیں؟ میں نے تو اس کا ذکر بھی کرنا مناسب خیال نہیں کیا آپ سے۔"
یہ بھی پڑھیں: گریڈ 20 سے گریڈ 22 تک نااہل اور کرپٹ افسروں کو فارغ کر دیا گیا، وزیراعظم شہباز شریف
دوسرا واقعہ
2007ء کے انتخابات کے بعد نئی حکومت قائم ہوئی تو دوست محمد کھوسہ پہلے دو تین ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے اور بعد میں وزیر بلدیات بنا دیے گئے۔ یہ اپنی سوچ اور سمجھ کے مالک تھے۔ ایک روز مجھے صاحب کا فون آیا بڑی سنجیدہ آواز میں کہا؛ "شہزاد صاحب؛ مجھے آپ سے اس بات کی توقع ہر گز نہ تھی۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔" میں مذاق سمجھا مگر جب انہوں نے یہ بات دہرائی تو میں نے جواب دیا؛ "سر! میرے علم میں ایسا کچھ نہیں جس سے آپ کو کبھی بھی شرمندگی اٹھانی پڑے۔ ہاں اگر کوئی ایسی بات ہوئی اور میرا قصور ہوا تو سر تب بھی سچ ہی بولوں گا۔ آپ بتائیں سر۔" کہنے لگے؛ "آپ کے وزیر بلدیات پنڈی آئے ہوئے ہیں اور ساری ٹی این ایز سے پچاس پچاس ہزار روپیہ لیا ہے اور آپ کے ایکسین لوکل گورنمنٹ سے تمام گاڑیوں کے لئے پیٹرول مانگا ہے۔ آپ نے تو ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔" میری جان میں جان آئی۔ میں نے کہا؛ "سر! آپ کو یہ سن کر کیسا لگا۔" جواب دیا؛ "شہزاد صاحب؛ I am so proud of you." میرے لئے اس سے زیادہ اطمینان کی اور کوئی بات نہ تھی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








