ظلم کے سائے میں زندگی ۔۔۔ عالمی ضمیر کے لیے ایک سوال
تاریخِ کشمیر کا سیاہ دن
تحریر: امبر جبین
27 اکتوبر تاریخِ کشمیر کا وہ سیاہ دن ہے جو آج بھی برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے اور عالمی انصاف کی ناکامی کی یاد دلاتا ہے۔ 1947ء کے اسی دن بھارتی افواج نے ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تب سے آج تک کشمیر ایک زندہ مگر لہو میں بھیگا ہوا مسئلہ ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے باوجود انصاف سے محروم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس کی بروقت مداخلت نے 14 سالہ لڑکی کے اغواء کی کوشش ناکام بنا دی، لڑکا گرفتار
یومِ سیاہ کا پیغام
یہ دن، جسے پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری یومِ سیاہ یا یومِ استحصال کے طور پر مناتے ہیں، محض ایک تاریخی واقعے کی یاد نہیں بلکہ ظلم، ناانصافی اور تسلط کے خلاف ایک مسلسل احتجاج ہے۔ اس دن کی سیاہی کشمیریوں کے دلوں کے زخموں سے بھی زیادہ گہری ہے — زخم جو 7 دہائیوں سے وقت کے ساتھ اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں انصاف کی دیوی کو ساڑھی کیوں پہنائی گئی؟
تقسیمِ ہند اور کشمیر کا مسئلہ
تقسیمِ ہند کے وقت برطانوی راج کی 562 ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی، مذہبی اور عوامی وابستگی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں شمولیت اختیار کریں۔ ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا جہاں 77 فیصد آبادی مسلمان تھی، لہٰذا قدرتی طور پر اس کا جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا۔ لیکن بھارت نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ مل کر 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کیں۔
یہ بھی پڑھیں: پرتگال سے تعلق رکھنے والے معروف فٹبالر بھائی سمیت ٹریفک حادثے میں ہلاک
اقوام متحدہ کی قرار داد
یہ اقدام اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھا۔ کشمیر کا تنازعہ اسی وقت سے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا، اور 1948ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے واضح طور پر یہ قرار داد منظور کی کہ "ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے کرنا ہوگا۔" لیکن بھارت نے آج تک اس قرارداد کو پامال کیا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جعلی انتخابات اور آئینی ترمیمات کا سہارا لیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ سے کشیدہ تعلقات، نریندر مودی نے بھارتی عوام سے ”خصوصی اپیل” کر دی
پاکستان کا مؤقف
پاکستان نے ابتدا ہی سے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کشمیر ایک نامکمل تقسیم کا تسلسل ہے، اور جب تک کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت نہیں ملتا، برصغیر میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان نے اس مسئلے پر کبھی جارحیت نہیں بلکہ ہمیشہ سفارتی، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد کو ترجیح دی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: حالیہ کشمکش میں نواز شریف اور افغانستان کی خاموشی معمہ ہے:لیاقت بلوچ
مسلم لیگ (ن) اور کشمیر کی تحریک
پاکستان مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سے کشمیریوں کی آواز اور ترجمان رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے تینوں ادوارِ حکومت میں کشمیر کو خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رکھا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی دفاعی قوت دراصل کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور اقوام متحدہ کے درمیان تنازع، عالمی ادارے کے لیے چیلنجنگ سال
آخری حدود کی خلاف ورزی
5 اگست 2019ء کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں بلکہ خود بھارت کے اپنے آئین کی روح کے خلاف تھا۔ اس کے بعد کشمیر ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو گیا۔ مواصلات بند، میڈیا پر پابندی، سیاسی قیادت گرفتاری، اور لاکھوں فوجیوں کی موجودگی نے وادی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: قطر میں امریکی ائیربیس پر ایک کے بعد ایک ایرانی میزائل حملے کو ناکام بنایا: امریکی جنرل
عالمی رد عمل
پاکستان نے اس غیرقانونی اقدام کو سفارتی محاذ پر بھرپور انداز میں اٹھایا۔ لیکن عالمی سیاست کے مفادات نے انصاف کی آواز کو دبائے رکھا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں معاشی اور تجارتی مفادات کے باعث بھارت کے سامنے خاموش ہیں۔
ایک عزم
کشمیر کی آزادی ہمارا ایمان ہے، اور یہ ایمان ایک دن فتح پائے گا۔ پاکستان کے موجودہ اتحاد اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی روایت آج بھی مضبوط ہے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں








