رشتوں کا خون
آنسوؤں کی بارش
بارش برس رہی تھی۔ کمرے کی کھڑکی کے شیشے پر بوندیں ٹک ٹک کر کے گر رہی تھیں، جیسے وقت کی دستک ہو… مگر رشید احمد کے لیے وقت کب کا رُک چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی ساری زمین بنجر ہے
رشید احمد کی زندگی
70 سالہ رشید جس نے زندگی بھر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک سرکاری سکول میں اردو کے استاد رہے۔ بچوں کو غالب، میر، فیض پڑھایا، رشتوں کی مٹھاس، خلوص کی قدر، اور حق حلال کی کمائی کا سبق دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ رشتے خون سے نہیں، قربانی، احساس اور وقت دینے سے جیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رواں برس سعودی عرب میں 100 غیر ملکیوں کو سزائے موت، کتنے پاکستانی شامل؟
عائلتی یادیں
ان کا گھر کبھی ایک جنت تھا۔ صحن میں آم کا پیڑ، شام کی چائے، بیوی کی ہنستی ہوئی آواز، بچوں کی کھیل کود — سب کچھ مکمل تھا۔ بیوی، شمیم، نرم مزاج اور سادہ عورت تھی، جس نے رشید کے ساتھ غربت میں بھی کبھی شکوہ نہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: جو ممالک اس کام سے انکار کریں گے ان کے ساتھ تجارت نہیں ہوگی – ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دے دی
تعلیم اور قربانیاں
بیٹے، فہد اور جبران، اور ایک بیٹی نائلہ۔ تینوں کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ خود نیا کپڑا نہ خریدا، مگر بچوں کے لیے ہمیشہ بہترین کا انتخاب کیا۔ ہر خواہش دبا لی، بس ایک خواب تھا کہ بچے کامیاب ہوں، خوش ہوں، اور کل جب بڑھاپا آئے تو ان کی محبت چھاؤں بنے۔
یہ بھی پڑھیں: پرامن کارکنوں پر گولیاں چلائی گئیں، محسن نقوی کو حساب دینا ہوگا، عمران خان
خوابوں کی حقیقت
لیکن وقت نے دکھایا کہ خواب کبھی کبھار بدترین حقیقت بن جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس کا طالب علم پر تشدد، رقم چھین لی، ڈکیت ظاہر کرنے کی دھمکی دیدی
تنہائی کی داستان
شمیم کے انتقال کے بعد رشید اندر سے ٹوٹ چکے تھے، مگر بچوں کے لیے زندہ رہنا ضروری تھا۔ جب ریٹائر ہوئے تو سوچا اب سکون سے وقت گزاریں گے۔ جائیداد بچوں میں برابر بانٹ دی، بغیر کسی لالچ کے۔ فہد نے بڑا بنگلہ لیا، جبران نے فلیٹ، اور نائلہ کی شادی دور کے ایک شہر میں ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں: گندم کے بقایاجات: وفاق اور صوبے کتنے ارب روپے کے نادہندہ ہیں؟ جان کر آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں
فاصلوں کا بڑھنا
پہلے پہل سب آتے جاتے رہے، پھر آہستہ آہستہ فاصلے بڑھنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کی بڑی کامیابی، سرحدی علاقے کا قبضہ دوبارہ حاصل کر لیا، صدر ولادیمیر پیوٹن کا دعویٰ
بچوں کی ذمہ داریاں
ایک دن فہد آیا، اور بولا:
"ابو، آپ ہمارے ساتھ چلیں، مگر بس ایک دو ہفتے کے لیے، ہمارے ہاں مہمان آ رہے ہیں، آپ کو پھر جبران کے پاس جانا ہوگا۔"
جبران کے ہاں گئے، تو چند دن بعد وہ بھی شرمندہ سا کہنے لگا:
"ابو، آپ کو تو معلوم ہے، بچے بڑے ہو گئے ہیں، کمرے کم پڑتے ہیں۔ بہتر ہوگا آپ نائلہ کے پاس کچھ دن رہ لیں۔"
نائلہ، جس نے بچپن میں سب سے زیادہ باپ سے محبت کی تھی، اب اپنے سسرال میں مجبور تھی۔ شوہر تنگ دل انسان تھا، بوڑھے سسر کو ساتھ رکھنے کے حق میں نہ تھا۔ وہ بھی فون پر صرف اتنا بولی:
"ابو، دعا کیجیے حالات بدلیں… میں آپ کو لینے ضرور آؤں گی۔"
یہ بھی پڑھیں: زیتون کا تیل ہڈیوں پر کیسے مفید اثرات مرتب کرتا ہے؟
اجنبی گھر
اور یوں رشید اپنے ہی گھر کے ایک سنسان کمرے میں رہ گیا۔ جس گھر کی بنیاد اس نے رکھی تھی، وہی اب اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: والد کے قتل کے الزام میں بیٹا اور بہو گرفتار
یادیں اور سوالات
وقت گزرتا گیا۔ رشید خاموش ہوتا گیا۔ ایک دن آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھے، اس نے بیوی کی تصویر کو دیکھا اور کہا:
"شمیم، ہم نے جو بیج بویا تھا، وہ سایہ کیوں نہ دے سکا؟ کیا ہم نے کچھ غلط کیا تھا؟"
یہ بھی پڑھیں: آئی جی پنجاب پولیس شہداء کی ویلفئر کیلئے سر گرم،شہید پولیس اہلکار کی فیملی کو گھر دیدیا
اندھیری رات
اُس رات بارش بہت تیز تھی۔ بجلی گئی ہوئی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا، مگر رشید کی آنکھوں میں جو اندھیرا اُتر چکا تھا، وہ کسی روشنی سے ختم نہ ہو سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئے، 20 ہلاک
نئی امید
صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ رشید کو یقین نہ آیا۔ کب سے تو دروازہ کوئی نہیں کھٹکھٹاتا تھا۔ جیسے ہی دروازہ کھولا، سامنے نائلہ کھڑی تھی — بھیگی ہوئی، آنکھوں میں آنسو، ہاتھ میں دوائیوں کا تھیلا، اور دل میں پچھتاوا.
"ابو... دیر ہو گئی، لیکن شاید بہت دیر نہیں ہوئی۔ میں آپ کو لینے آئی ہوں۔"
رشید اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس کے لب ہلے:
"رشتے خون کے ہوتے ہیں، مگر جب خون بےوفائی سے آلودہ ہو جائے، تو وہ رشتے زہر بن جاتے ہیں، نائلہ۔"
نائلہ نے باپ کے ہاتھ تھام لیے:
"ابو، خون میں زہر آ جائے تو علاج ممکن ہے۔ میں وہ علاج بننا چاہتی ہوں۔"
یہ بھی پڑھیں: سیلابی صورتحال اور بارشوں کے باعث محکمہ موسمیات نے ڈینگی الرٹ جاری کردیا
محبت کی نشانی
رشید کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ برسوں بعد کسی نے اس کا ہاتھ یوں محبت سے تھاما تھا۔
شاید وہ مکمل تنہا نہیں تھا۔
شاید رشتوں کا خون ہوا تھا لیکن دل ابھی زندہ تھا۔
نوٹ
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








