بیگم کی اجازت سے بڑی ڈائننگ ٹیبل پر ہم نے بہت محنت سے عمارتیں کھڑیں کیں، پٹریاں بچھائیں، اور ان پر دوتین گاڑیاں بھی جوڑ کر کھڑ ی کر دیں
مصنف کی ابتدائی باتیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 301
کچھ گھنٹوں بعد جب یہ سارا کھیل تماشا اپنے اختتام کو پہنچا تو اس نے میرے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور وہاں سے رخصت ہوتے وقت مجھے ایک نسبتاً چھوٹا سا شنٹنگ کرنے والا ڈیزل لوکوموٹیو اور برٹش ریلوے کے ڈرائیور کی ایک سیاہ ٹوپی بھی تحفے میں دی تھی۔ وہ کہتا تھا جو فلائنگ سکاٹس مین انجن تم نے خریدا ہے وہ ایکسپریس اور پسنجر گاڑیوں کے لیے ہے۔ اس سے یارڈ میں کھڑی گاڑیوں کی شنٹنگ نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے یہ والا چھوٹا انجن ہوتا ہے۔ مفت میں مل رہا تھا اس لیے میں نے لیتے وقت بڑی مسرت کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: جب سوویت فوجیوں نے ایک اڑن طشتری گرائی تو خلائی مخلوق نے 23 فوجیوں کو پتھر بنادیا، سی آئی اے دستاویز میں تہلکہ خیز دعویٰ
امریکا منتقل ہونے کی تیاری
اب اس سامان کے 2 بڑے بڑے کارٹن بن گئے تھے، مجھے چونکہ آگے امریکا جانا تھا اس لیے ان کو ٹم کے حوالے کر کے تاکید کر دی کہ وہ بعد میں انھیں مجھے ریاض بھجوا دے۔ پھر سعودی عرب واپسی کے بعد ایک روز مجھے ان کی آمد کی اطلاع ملی تو میں وصول کرنے جا پہنچا، وہاں کسٹم والے سعودی افسر نے پہلے میرے نیم سفید بالوں کو دیکھا اور پھر ان کھیل کھلونوں پر نظر مار کر وہ ذرا مسکرایا اور کہا کچھ بھی نہیں۔ قاعدے قانون کے مطابق کسٹم کی رسومات ادا کر کے انھیں لا کر اسی طرح سٹور میں رکھ دیا۔ وہاں تقریباً ہر ہفتے میں گتے کے ان ڈبوں کو حیرت و حسرت سے دیکھتا تھا۔ دراصل وہاں وقت ہی نہیں مل پا رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ترکیہ کا تعاون جاری رکھنے کا عزم، جو کچھ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے اسے ہمارا مشترکہ اعلامیہ سمجھا جائے: ترک وزیر خارجہ
پاکستان میں ریلوے سروس کا آغاز
جب کچھ برس بعد میں مستقل طور پر پاکستان منتقل ہوا تو انھیں بھی ساتھ ہی لے آیا۔ ایک روز میں نے محسوس کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب ان کی طرف متوجہ ہوا جائے اور اپنی ذاتی ریلوے سروس کا آغاز کیا جائے۔ پھر موقع ملتے ہی ان ڈبوں کو کھولا تو اس میں سے اتنا مال نکلا کہ میں دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اتنا کچھ تو شاید نوجوان فرعون بادشاہ توتنخاموں کے مقبرے سے بھی نہ نکلا ہو گا۔ جب انھیں نصب کرنے کے لیے سوچ بچار شروع ہوئی، اور متعلقہ کتابیں پڑھیں تو علم ہوا کہ اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے تو کم از کم ایک مکمل کمرہ چاہیے تھا، جو میرے پاس نہیں تھا۔ پھر بھی ایک مبہم سی آس پر ریلوے کے اس عظیم الشان منصوبے پر کام شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلورو: 7 منزلہ زیر تعمیر عمارت منہدم، کئی مزدور پھنس گئے ، 1ہلاک
تعمیراتی مراحل
اس تعمیراتی کام میں میری معاونت کے لیے "اچھی گزر گئی" والا عبداللہ بابا بلھا دستیاب تھا۔ ہم دونوں نے مل کر کوئی دو تین ہفتے تک دن رات پر محنت کر کے ان سب کل پرزوں اور عمارتوں وغیرہ کو ساتھ دی گئی ہدایات کے مطابق جوڑ لیا۔ کارڈ بورڈ اور پلاسٹک سے بنائے ہوئے اسٹیشن اور دیگر عمارتیں، کتابچوں میں بنی ہوئی تصاویر کو دیکھ کر تیار کر لی تھیں اور بڑی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اسٹیشن کی اصلی عمارتیں جادو کے زور پر چھوٹی چھوٹی سی بن گئی ہیں، اتنی ننھی سی کہ اسٹیشن کی پوری عمارت کسی بڑے ہاتھ والے بندے کی ہتھیلی پر جمائی جا سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کو دفاعی میدان میں ایک اور بڑا دھچکا، برازیل نے آکاش میزائل سسٹم کی خریداری روک دی
عملی کارگزاری کی مشکلات
پٹریوں کو بچھانے اور عملی کارگزاری کا وقت آیا تو کوئی راستہ نہ پا کر بیگم کی اجازت سے بڑی سی ڈائننگ ٹیبل پر ہم دونوں نے بہت محنت سے یہ عمارتیں کھڑی کیں، پٹریاں بچھائیں، اور ان پر دو تین گاڑیاں بھی جوڑ کر کھڑی کر دیں۔ پورا ہفتہ لگ گیا تھا اس نظام کی تیاری میں۔ پھر ایک دن یہ مکمل ہوا تو یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ اس نام نہاد ریلوے نظام کو چلانے کے لیے بجلی کا کنکشن تو لگایا ہی نہیں تھا اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کوئی انتظام ہو سکتا تھا۔ اب شیشے کی میز میں سوراخ کر کے تو بجلی ان پٹریوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی تھی، اور بجلی کے بغیر انجن نے اپنی جگہ سے ہلنا بھی نہیں تھا، وہ بھلا کیسے بھاگتا۔ پھر اسٹیشن کی روشنیاں، اور سگنل کی سرخ و سبز بتیاں کیسے روشن ہوں گی اور لیول کراسنگ کے پھاٹک کیسے خود بخود کھلیں اور بند ہوں گے۔ یہ سب کچھ جان کر دل بجھ سا گیا اور ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








