صاحب ان دنوں طفیل روڈ والے گھر رہتے تھے، یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی کہ وزیر قانون کی گاڑی چرا لی گئی، کوشش کے باوجود پولیس برآمد نہ کر سکی۔
مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 346
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے خلاف سکھ رہنما بھی بول پڑے: “ہم انڈین آرمی کو پنجاب سے گزر کر پاکستان پر حملہ نہیں کرنے دیں گے” سکھ تنظیم نے اہم اعلان کر دیا
وزیر قانون کی گاڑی چوری
سعادت اللہ خاں آئی جی پنجاب تھے۔ یہ شاندار انسان اور اتنے ہی اچھے افسر تھے۔ اعلیٰ اردو اور انگریزی بولتے تھے۔ میرے بڑے بھائی زاہد سلمان کے عزیز دوست بھائی جان مشتاق کے خالہ زاد بھائی تھے۔ صاحب ان دنوں طفیل روڈ والے گھر رہتے تھے کہ ان کے گھر کے باہر سے 88 ماڈل کرولا گاڑی چوری ہو گئی۔ یہ حکومت سمیت پنجاب پولیس کے لئے بڑی شرمندگی کی بات تھی کہ وزیر قانون کی گاڑی چرا لی گئی تھی۔ کوشش کے باوجود پولیس گاڑی برآمد نہ کر سکی تھی۔ مختلف چہ میگوئیاں روز جنم لیتی تھیں۔ ایک یہ بھی تھی کہ گاڑی پولیس نے خود ہی چوری کرائی تھی۔ تنگ آ کر سعادت اللہ خاں نے صاحب سے کہا؛ "سر! ہم آپ کو نئی گاڑی دلا دیتے ہیں۔" صاحب نے کورا انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ آئی جی کی بات کا برا بھی منایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ریلوے اسٹیشن کو ایئرپورٹ جیسا بنا دیا گیا، بہترین سہولیات، ٹرین وقت پر آئے گی یا نہیں؟ اب باآسانی اپنے موبائل سے ہی معلوم کریں
دوست محمد کھوسہ کی تشویش
2007ء کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت بنی تو دوست محمد کھوسہ پہلے وزیر اعلیٰ اور بعد میں وزیر بلدیات بنے تو انہوں نے ایک روز مجھے اپنے سٹاف افسر نبی دیوان (یہ مجھ سے جو نئیر مگر اچھا انسان تھا) بلا کر پراڈو کے بارے پو چھا کہاں ہے اور کیسے خریدی؟ میں نے جواب دیا؛ "سارے کاغذات محکمہ میں موجود ہیں۔ یہ ایک خاندانی اور وضع دار شخص کے زیر استعمال رہی لہٰذا مس یوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔" وہ خاموش ہو گئے۔ اسی طرح انہوں نے ملک محمد رمضان اے ڈی ایل جی ڈی جی خاں کے خلاف کی گئی میری انکوائری میں رمضان کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے کہا تھا۔ میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "میں لکھی ہوئی تحریر کو بدلتا نہیں سر۔ آپ پسند کریں تو denovo انکوائری کرا لیں۔"
یہ بھی پڑھیں: ان ساتھیوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ضمیر کی آواز پر ترمیم کو ووٹ دیا اور بڑی بہادری سے ووٹ دیا یہی تو جمہوریت ہے ، اسحاق ڈار
وقت کی پابندی
وقت کی پابندی بھی صاحب پر ختم تھی۔ میٹنگ ہو یا کوئی دورہ ہو، اسمبلی اجلاس ہو "دیر" نام کے لفظ سے وہ ناواقف تھے۔ اسمبلی اجلاس میں کوئی پہنچے نہ پہنچے وہ وقت مقررہ سے کئی منٹ پہلے ہی پہنچتے۔ ان کا ہوم ورک مکمل ہوتا بلکہ وہ کسی بھی صورت حال سے نپٹنے کے لئے تیاری کر کے آتے تھے۔ اسمبلی اراکین کی نفسیات سے بھی خوب واقف تھے۔ سوال و جواب والے دن ان کی تیاری کسی بھی وزیر کے مقابلے outstanding ہوتی تھی۔ سوال و جواب کی مکمل اپ ڈیٹ ہوتی اور سوال پوچھنے والے رکن کو تازہ ترین معلومات دیتے حالانکہ رکن کے پاس جوابات کی پرانی کاپی ہوتی تھی۔ ہر رکن اسمبلی سے خوش دلی اور شفقت سے ملتے، سب کی عزت کرتے، احترام سے پیش آتے تھے اور ایسا ہی احترام اراکین بھی انہیں دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے رانا ثنا اللہ خاں ہوں، یا راجہ ریاض، قاسم ضیاء ہوں یا آفتاب احمد خاں (یہ سبھی اپوزیشن کے جید راہنما تھے) سبھی ہمارے دفتر آتے اور اپنے مسائل کا حل پاتے تھے۔ میری پھوپھی "نشاط افزا" پیپلز پارٹی کی جانب سے مخصوص نشست پر اسمبلی رکن تھیں۔ ان کے سخت جملوں اور برجستہ جملوں پر صاحب محظوظ بھی ہوتے اور ترکی بہ ترکی جواب بھی دیتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








