پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے واقعات پر فیکٹ شیٹ جاری، جنوری تا جون 6ماہ کے دوران 15 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے
خواتین پر تشدد کے واقعات کی فیکٹ شیٹ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی فیکٹ شیٹ جاری کر دی ہے۔ جس کے مطابق رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے انتہائی تشویشناک رجحانات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق جنوری تا جون 2025ء کے دوران 15 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، یعنی اوسطاً روزانہ 85 خواتین مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: چوہنگ میں معروف یوٹیوبر رجب بٹ کے گھر پر ایک بار پھر فائرنگ
اعداد و شمار کا ماخذ
ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ اعداد و شمار پنجاب پولیس سے حقِ معلومات (آرٹی آئی) کے تحت حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں خواتین کے خلاف 6 سنگین اقسام کے تشدد سمیت زیادتی، گھریلو تشدد، اغوا، غیرت کے نام پر قتل، ٹریفکنگ، سائبر ہراسگی اور ہراسگی کے ساتھ ساتھ زیرِ تفتیش، چالان شدہ، زیرِ سماعت، سزا یافتہ، بری یا واپس لیے گئے مقدمات کی صورتحال بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی، نیشنل ہائی وے وکلا احتجاج، مظاہرین پر بلٹ پروف جیکٹس، واکی ٹاکی، گیس شیلز چوری کے مقدمات درج
اعداد و شمار کی ترتیب
رپورٹ میں اضلاع کے درمیان درست موازنہ کے لیے اعداد و شمار ہر ایک لاکھ بالغ خواتین کی آبادی کے حساب سے ترتیب دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہم سب کے سامنے ہے، بروقت اور سخت سزا انکی ترقی کا راز ہے، بات سمجھ کی ہے کوئی جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی بہتر ہے
تشویش ناک جائزے
فیکٹ شیٹ کے مطابق صوبے میں خواتین سے متعلق جرائم میں رپورٹنگ بہتر ہو رہی ہے مگر اب بھی پولیس ڈیٹا چھپاتی ہے جس کی وجہ سے ڈس انفارمیشن ہوتی ہے اور کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ فیکٹ شیٹ کے مطابق اوسطاً روزانہ 9 خواتین کے ساتھ زیادتی، 51 خواتین اغوا جب کہ 24 خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: چارسدہ : موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ، پولیس اہلکار جاں بحق، محکمہ صحت کا ملازم زخمی
علاقائی تجزیہ
ایس ایس ڈی او کے مطابق یہ اعداد و شمار نہ صرف تشدد کے پھیلاؤ کی تصویر پیش کرتے ہیں بلکہ ہمارے نظام انصاف اور سماجی رویّوں میں موجود وہ کمزوریاں بھی واضح کرتے ہیں جو خواتین کے تحفظ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صرف 6 ہزار روپے کی خاطر شہری کو قتل کردیا گیا
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
ضلع لاہور تمام اضلاع میں سب سے زیادہ متاثر پایا گیا، جہاں زیادتی کے 340، اغوا کے 3018 اور گھریلو تشدد کے 2115 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں بھی لاہور سرفہرست اضلاع میں شامل ہے۔ دیگر زیادہ متاثرہ اضلاع میں ملتان، گجرانوالہ، سیالکوٹ، قصور، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ننکانہ صاحب شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی فوجداری عدالت کی 4 خواتین ججز پر پابندیاں عائد کر دیں
سائبر ہراسگی کے کیسز
سائبر ہراسگی کے کیسز صرف 5 اضلاع اوکاڑہ، شیخوپورہ، لیہ، پاکپتن اور گجرات میں رپورٹ ہوئے، جو ایس ایس ڈی او کے مطابق نہ صرف کم رپورٹنگ کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ڈیجیٹل شکایتی نظام تک غیر مساوی رسائی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ خواتین کی ٹریفکنگ کے جرائم میں مظفرگڑھ اور پاکپتن سرفہرست رہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور ارکان پنجاب اسمبلی کے لیے میدان میں آگئے، پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی
ڈیٹا کی عدم دستیابی
مزید یہ کہ بہاولنگر، بہاولپور، چکوال، چنیوٹ، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد، حافظ آباد، نارووال، رحیم یار خان، راجن پور، راولپنڈی، ساہیوال اور سرگودھا سمیت متعدد اضلاع نے پنجاب انفارمیشن کمیشن کی واضح ہدایات کے باوجود مطلوبہ ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔ حالانکہ یہ وہ معلومات ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اپنی ویب سائٹس پر عوامی رسائی کے لیے دستیاب کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرپلس ایل این جی کھپانے کے لیے گھریلو گیس کنکشن پر پابندی اٹھانے پر غور شروع
معلومات کی شفافیت پر سوالات
ایس ایس ڈی او کے مطابق پنجاب پولیس نے انفارمیشن کمیشن کے احکامات کے باوجود مذکورہ اضلاع کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا، جس سے صوبے میں خواتین پر تشدد سے متعلق ریکارڈ کی شفافیت اور درستگی پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ کیس ٹو میں گواہ کا بیان قلم بند، بشریٰ بی بی کے وکیل نے جرح مکمل کر لی
ایکشن کی ضرورت
ایس ایس ڈی او نے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنانے، پولیس کی تفتیشی صلاحیتوں میں اضافہ، عدالتی عمل میں تیزی اور متاثرہ خواتین کے لیے معاون خدمات کو وسعت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
موثر حل کی راہ
تنظیم نے کہا کہ شفاف ڈیٹا، جوابدہی پر مبنی حکمرانی اور کمیونٹی سطح پر آگاہی کو فروغ دے کر ہی خواتین پر تشدد کے مسئلے کا موثر حل ممکن ہے۔








