لاہور سے خانیوال تک برقی انجنوں سے چلنے والی گاڑیاں بیس پچیس برس بھی نہ چل پائیں کیونکہ لٹکائی گئیں تانبے کی برقی تاریں چور لے اْڑے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 331
پاکستان بننے کے بعد صرف لودھراں سے لاہور تک کی پٹری کو دو رویہ کیا جا سکا ہے۔ ابھی بھی لاہور سے پشاور تک ایک پٹری ہی چلتی ہے، جس کی وجہ سے ایک گاڑی کو روک کر دوسری کو کراس کروانا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ادلے کا بدلہ ہوگیا، اب انہیں رک جانا چاہیے، پاک بھارت کشیدگی پر ٹرمپ کا بیان آگیا
برقی انجنوں کا نقصان
لاہور سے خانیوال تک برقی انجنوں سے چلنے والی گاڑیاں پاکستان میں بیس پچیس برس بھی نہ چل پائیں کیونکہ اس کے لیے لٹکائی گئیں تانبے کی برقی تاریں چور لے اْڑے جن کی مدد کے لیے محکمے کا بدعنوان عملہ حاضر تھا ان کی مرضی اور تعاون کے بغیر یہ کام ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اتنے ہائی وولٹیج سے بھری ہوئی تار کو بھلا کس کی ہمت ہے کہ ہاتھ لگائے، کوئی تو ہوگا جو پیچھے سے برقی رو منقطع کرتا ہوگا تاکہ تار چور اس دوران اپنا کام تسلی سے کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے دورے پر آئے سفارتکاروں پر فائرنگ کردی
بدعنوانی کے اثرات
محکمے کے کچھ ملازمین میں بے ایمانی اور بدعنوانی اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ انھوں نے استعمال شدہ اور بیکار اشیاء کے ساتھ ساتھ کارآمد اشیاء بھی بیچ کھائیں۔ انتہا یہ تھی کہ چین سے درآمد کیے جانے والے نئے ڈیزل انجنوں میں استعمال ہونے والے صاف ستھرے موبل آئل اور ڈیزل کو چوری کر کے باہر مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا اور اس کی جگہ بھٹیوں کا استعمال شدہ گندا موبل آئل ڈالا جاتا رہا جس سے انجن بری طرح تباہ ہونے لگے اور ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا تھا جب کوئی نہ کوئی انجن فیل ہو کر بیچ جنگل میں نہ کھڑا ہو جاتا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بزنس آن لائن ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز سے چین کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ملاقات
وزیروں کی تبدیلی کا اثر
اس دوران کئی وزیر آئے، متعدد بار ریلوے کے اعلیٰ افسروں کو بھی تبدیل کیا گیا لیکن حالات بدستور وہیں کے وہیں رکے رہے۔ کسی نئے جذباتی قسم کے وزیر کی آمد پر وقتی طور پر کچھ بہتری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں لیکن جلد ہی عملے کے بدعنوان افراد اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے یا یونین کا دباؤ ڈال کر معاملے کو رفع دفع کروا دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور بار اور ہائیکورٹ بار میں سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود مسلم لیگی وکلاء مختلف دھڑوں میں بٹ جانے کے باعث 1996ء کے انتخابات ہار گئے تھے
مسافروں کی تبدیلی
دوسری طرف مسافر گاڑیوں کی کم رفتار اور مخصوص اور ناموافق اوقات میں چلنے کی وجہ سے عوام نے اس طرف سے منہ پھیر لیا اور نسبتاً تیز رفتار، سستی اور بروقت مہیا ہو جانے والی سواریوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کر لی۔
یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام میں پنجاب میں دفعہ 144، پولیس کے ساتھ رینجرز اور آرمی کے جوان بھی فرائض انجام دیں گے
مال گاڑیوں کا زوال
مال گاڑیوں کی تعداد ایک دم بے تحاشا کم ہو گئی اور ان پر جانے والا سارا مال رفتہ رفتہ ٹرکوں اور ٹریلروں پر منتقل ہو گیا۔ مال گاڑیاں، جو کسی اچھے وقت میں روزانہ دس پندرہ کی تعداد میں نکلا کرتی تھیں وہ اب ہفتے میں ایک دو تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔
مستقبل کے منصوبے
غرض ہر طرف سے تباہ حال اس محکمے کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے اب کسی معجزے کا انتظار تھا۔ اور یہ معجزہ پڑوسی ملک چین سے ایک معاہدے کی صورت میں سامنے آیا جسے سی پیک CPEC کا نام دیا گیا، یہ چین کا ایک بہت ہی عظیم الشان اور وسیع منصوبہ تھا جو مجموعی طور پر تو کھربوں ڈالرز میں پھیلا ہوا تھا اور جس سے وہ ساری دنیا کے بڑے خطوں سے زمینی، مواصلاتی اور تجارتی روابط رکھنا چاہتا تھا۔ اس کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں بھی استعمال ہونا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








