لکھنؤ، جسے کبھی اودھ کے نوابوں کا شہر کہا جاتا تھا، اپنی تہذیب، روایات، اور پکوانوں کے لیے مشہور ہے۔ سرد شاموں میں جب شہر کی روشنیوں میں تاریخ کی جھلک نظر آتی ہے، وہاں کی روایتی کھانوں کی بات کی جائے تو ایک خاص ڈش نمایاں ہوتی ہے: متنجن۔ یہ ایک ایسی میٹھی ڈش ہے جسے نوابوں کے دسترخوان پر خاص اہمیت حاصل تھی اور خاص مواقع پر تیار کی جاتی تھی۔
متنجن کیا ہے؟
متنجن ایک روایتی میٹھی ڈش ہے جس میں زعفرانی چاول، کھویا، کاجو، بادام، کشمش، اور چاندی کا ورق شامل ہوتا ہے۔ اس ڈش کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں گوشت کے نرم ٹکڑے بھی شامل کیے جاتے ہیں، جو اسے اور بھی منفرد بناتے ہیں۔ یہ نہ صرف میٹھا ہوتا ہے بلکہ اپنے منفرد ذائقے اور خوشبو سے کھانے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔
متنجن کی تاریخی جھلک
متنجن کی اصل کہانی عربی اور ایرانی کھانوں سے جڑی ہے۔ لفظ "متاجن" عربی زبان سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے 'برتن میں تلنا'۔ لیکن اس کے باوجود متنجن کا موجودہ روپ عربی متاجن سے خاصا مختلف ہے۔ اس پکوان کا تذکرہ 16ویں صدی کے فارسی شہنشاہ عباس کے پسندیدہ پکوانوں میں بھی ملتا ہے۔
مغلیہ دور میں متنجن
متنجن کا ذکر مغل بادشاہ اکبر کے دور میں بھی ملتا ہے۔ ان کے وزیر ابوالفضل نے شاہی دسترخوان پر پیش کیے جانے والے کھانوں میں متنجن کو ایک خاص مقام دیا تھا۔ مغل دور کی ایک اور اہم کتاب ’نسخہ شاہجہانی‘ میں بھی متنجن پلاؤ کی ترکیب پائی جاتی ہے، جس میں چاولوں کے ساتھ گوشت اور میٹھے اجزاء کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
متنجن اور قدیم لکھنؤ
مصنف مرزا جعفر حسین نے اپنی کتاب ’قدیم لکھنؤ کی آخری بہار‘ میں 13 تحائف کا ذکر کیا ہے جو لکھنؤ نے دنیا کو دیے، ان میں متنجن بھی شامل ہے۔ یہ ڈش نوابوں کے گھرانوں میں تیار ہوتی تھی، لیکن عام بازاروں میں بھی اسے خرید کر کھایا جا سکتا تھا۔
نوابوں کے دسترخوان کی زینت
لکھنؤ کے نوابوں کے دسترخوان پر متنجن کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ عیدالاضحیٰ اور دیگر تہواروں پر یہ پکوان خاص اہتمام سے بنایا جاتا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والے اجزاء جیسے زعفران، کھویا، اور خشک میوہ جات نہایت خوشبو دار ہوتے تھے، اور جب اس میں گوشت کے نرم اور لذیذ ٹکڑے شامل کیے جاتے تھے تو یہ ایک مکمل شاہی ڈش بن جاتی تھی۔
عربی اور فارسی کھانوں سے مماثلت
متنجن کی تیاری میں چاول، گوشت، اور مٹھاس کا امتزاج پایا جاتا ہے، جو عربی اور فارسی کھانوں میں بھی عام تھا۔ ایرانی پکوان "مرصع پلو" متنجن کی ایک مثال ہے، جس میں چاولوں کے ساتھ خشک میوہ جات اور گوشت شامل کیے جاتے ہیں۔
متنجن کی ترکیب
متنجن کی تیاری ایک خاص فن ہے جس میں بہت نفاست اور باریکی شامل ہوتی ہے۔ چاولوں کو پہلے زعفران میں بھگویا جاتا ہے تاکہ ان کا رنگ سنہری ہو جائے۔ پھر کھویا، کاجو، بادام، اور کشمش کو گھی میں فرائی کر کے چاولوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ آخر میں چاندی کا ورق لگا کر اس کی سجاوٹ کی جاتی ہے تاکہ یہ شاہانہ لگے۔
متنجن کی موجودہ حیثیت
آج کے دور میں متنجن کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن جب یہ خاص مواقع پر تیار کیا جاتا ہے تو اس کی خوشبو اور ذائقہ ماضی کی عظمت اور نوابوں کی روایات کی یاد دلاتا ہے۔ متنجن ایک ایسی ڈش ہے جو لکھنؤ کی تہذیب اور اس کی تاریخ کا حصہ ہے۔
اختتامیہ
متنجن محض ایک میٹھی ڈش نہیں بلکہ لکھنؤ کی ثقافت، روایات اور تاریخ کی علامت ہے۔ یہ ڈش ہمیں ماضی کے ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب نوابوں کے دسترخوان پر ایسے شاہی پکوان سجائے جاتے تھے۔ متنجن کا ذائقہ اور خوشبو آج بھی پرانی تہذیب کی جھلک پیش کرتے ہیں، اور اس کا تاریخی پس منظر اسے اور بھی خاص بناتا ہے۔