قانون سازی کا یہ طریقہ کار درست نہیں، مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پی ٹی آئی کا بیان
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ قانون سازی کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔ مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ یہی قوانین شہباز شریف اور پی پی کے خلاف استعمال ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ملتان ٹیسٹ: پہلے دن کے اختتام پر پاکستان نے 328 رنز کا جال بچھا دیا
میڈیا سے گفتگو
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کمیٹی میں کہا کہ ججز کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں بحث ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کے اندر آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں، ہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ملک قیوم کورٹ بنانا چاہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کی رواں سال پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی کی پیشگوئی
قومی اسمبلی میں بل کی منظوری پر تنقید
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی۔ اپوزیشن کو وقت دیے بغیر بل بلڈوز کیے گئے، یہ ترمیم حکومت اور فوج کے لیے اچھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی قوانین شہباز شریف اور پی پی کے خلاف استعمال ہوں گے اور اُس وقت پی پی اور ن لیگ کے پاس بھاگنے کا راستہ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سے گرفتار ارب پتی چور کا عبدالرزاق کے گھر بھی واردات کا انکشاف
چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید موقف
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بل رولز کے تحت منظور نہیں ہوا۔ بل نہ قائمہ کمیٹی میں گئے نہ بحث ہوئی۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 کر دی گئی ہے، جبکہ بھارت میں اس وقت صرف 33 ججز ہیں۔ یہ سپریم کورٹ میں اپنے ججز بٹھانا چاہ رہے ہیں، یہ ان کی بھول ہے۔ ریاست کے ایک ستون کو کمزور کرنا حکومت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت ملک کی ہائی کورٹس کے 96 ججز ہیں۔
بیرسٹر گوہر کی رائے
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کو 3 سال توسیع دی گئی اُس میں جواز موجود تھا۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ نے قانون سازی کا کہا تھا۔ اب پہلی تقرری ہی 5 سال کی ہوگی، آئین کا آرٹیکل 243 کچھ اور کہتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی غلط ہے، اور ہمارے فیصلے کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کرے گی۔