ایسا جزیرہ جہاں لاکھوں سانپ ایک دوسرے کو بھی کھا جاتے ہیں
امریکی جزیرے گوام میں آس پاس کے دیگر جزیروں کے مقابلے میں 40 گنا زیادہ مکڑیاں پائی جاتی ہیں اور سانپوں کی اتنی بڑی آبادی ہے کہ انہوں نے یہاں کے تمام پرندوں کو کھا کر ختم کر دیا ہے۔
پانچ سال پہلے، ہالڈرے راجرز نے فلپائن سے تقریباً 1500 میل دور مغربی بحر الکاہل میں واقع جزیرے گوام پر ایک میٹنگ میں شرکت کی۔
لیکن اس محفل کو جلد ہی ایک انجان مہمان نے روک دیا۔
رات کے کھانے سے بچا ہوا سور کا گوشت ابھی انگاروں پر تھا، آگ کے شعلے بجھ رہے تھے مگر آگ اب بھی گرم تھی۔ وہ سب باتیں کرتے ہوئے کچھ دیر وہاں سے ہٹے اور جب واپس آئے تو سور کے گوشت کے گرد ایک بھورے رنگ کی مخلوق کو لپٹا ہوا دیکھا۔
یہ ایک چمکدار، کھردرا سانپ تھا، جس کا چوڑا سا سر تھا۔ یہ مخلوق سور کے گوشت کے ٹکڑوں کو پھاڑ رہی تھی اور آہستہ آہستہ انہیں پوری طرح نگل رہی تھی۔
امریکہ کے ورجینیا ٹیک کے محکمہ فشریز اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راجرز کہتے ہیں، 'یہ کوئی 200 کلو گرام وزنی سور نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ ایک بڑی دعوت کا سامان تھا۔'
یہ ایک بھورے رنگ کا ٹری سنیک تھا۔ یہ سانپوں کی ایک حملہ آور نسل ہے جو شاید سنہ 1940 کی دہائی میں ایک مال بردار جہاز میں چھپ کر گوام پہنچی تھی۔
اس سے پہلے بہت سے مقامی پرندے جزیرے کے سرسبز جنگلات میں خوش رہتے تھے لیکن ان سانپوں کی آمد کے صرف چار دہائیوں بعد وہاں پرندوں کا وجود ختم ہو گیا۔
آج جزیرے کے 12 پرندوں کی 10 اقسام معدوم ہو چکی ہیں جبکہ باقی دو نے ناقابل رسائی غاروں اور شہری علاقوں میں پناہ لے لی ہے۔
گوام پر تقریباً 20 لاکھ سانپوں کی آبادی (کوئی نہیں جانتا کہ اصل میں کتنے ہیں) چوہوں، چھپکلیوں اور انسانی خوراک کے بچے ہوئے حصوں سمیت ہر چیز کو کھا جاتی ہے۔
کولوراڈو کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، سدرن پلینز لینڈ ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنری پولک، جنہوں نے گوام کے ماحولیات کا مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں، 'انھیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ کھا جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو بھی کھا جاتے ہیں۔'
بھورے سانپوں کے حملے اور خاموش جنگلات کے باعث گوام کرہ ارض پر سب سے زیادہ ماحولیاتی تباہی کی ایک مثال بن چکا ہے۔
لیکن اس بحران کے اثرات اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں کہ پرندوں کی کم تعداد کی وجہ سے جنگلات کی خاموشی بے حد پریشان کن محسوس ہوتی ہے۔ گوام میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک ارتقائی تجربہ ہے۔
ایک بڑا نیٹ ورک
اکثر جزائر پر بارش کے موسم میں مکڑیاں کم عدد میں ملتی ہیں، جبکہ خشک موسم میں ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ لیکن گوام میں ایسا نہیں ہے۔
جزیرے کے چونے کے پتھر والے جنگلات میں مکڑیاں سال بھر موجود رہتی ہیں۔ میلوں تک پھیلے چاندی کے دھاگے ہیں، جہاں آپ کا ہر قدم ایک نئے جالے اور اس کے میزبان سے ملتا ہے۔
یہاں دیوہیکل پیلے پیٹ والی کیلے کی مکڑیاں ہیں، جن کے سنہری جالے کلاسک پہیلی کے انداز میں دیکھائی دیتے ہیں۔ انسانی ہاتھ کے سائز کی خیمہ نما مکڑیاں جو درختوں کے سوراخوں کو اپنی وسیع ریشمی تاروں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔
راجرز اس قسم کے جال کو ’کنڈومینیئم ٹائپ‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ ہر ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس کی طرح لگتے ہیں، جو آٹھ ٹانگوں والی مخلوق کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں: ان میں سینکڑوں چمکتی آنکھیں ہوتی ہیں، جو درجنوں مکڑیوں کی ہیں۔
راجرز کا کہنا ہے کہ 'اس بڑے جال پر مختلف مقامات پر کئی مادہ بیٹھی ہوتی ہیں اور کئی نر کناروں کے گرد لٹک رہے ہوتے ہیں۔'
یہ جالے چھوٹی مکڑیاں بھی پسند کرتی ہیں، جو شکار چوری کرتی دکھائی دیتی ہیں اور کبھی کبھار اپنے بہت بڑے میزبانوں کو بھی کھا جاتی ہیں۔
'گوام میں یہ (کونڈو جال) زمین کی سطح سے لے کر شامیانے کی بلندی تک کہیں بھی موجود ہو سکتے ہیں۔'
ایسا لگتا ہے کہ پورا جنگل ہالووین کے لیے مصنوعی مکڑی کے جالوں سے ڈھکا ہوا ہے۔
راجرز کا کہنا ہے کہ 'یہ اتنا زیادہ ہے کہ جب آپ پیدل سفر کر رہے ہوتے ہیں تو سامنے والے کے لیے یہ عام بات ہوتی ہے کہ وہ چھڑی لے کر چلیں اور چلتے ہوئے جالوں کو گراتے جائیں۔ ورنہ آپ جالوں میں جکڑ جائیں گے۔ مجھے یہ پسند ہے لیکن اس سے گزرنا مشکل ہے۔'
جہاں کہیں درختوں کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے، وہ جگہ سینکڑوں مختلف مکڑیوں کے جالوں سے بھر جاتی ہے۔ ان کی اجتماعی کوششیں آسانی سے ایک کمرے کے سائز کی جگہ پر قبضہ کر سکتی ہیں۔
راجرز کا کہنا ہے کہ ’ایک بار میرا ایک دوست تھا جو مکڑی کے جالے کے بیچ میں آ گیا تھا اور وہ مکڑی کے جالے کے اس بڑے ٹکڑے میں ایک ممی کی طرح گھوم رہا تھا۔ اس نے یہ کام ان لوگوں کو ڈرانے کے لیے کیا جو اس کے ساتھ تھے۔‘
یہ بھی پڑھیں: سیالکوٹ میں سموگ ایمرجنسی کیخلاف ورزی پر چار سکول سیل
ایک پیچیدہ ماحولیاتی نظام
جنگل کے فرش پر مٹی بہت کم ہے۔ اس کے بجائے پودے چونے کے پتھر سے براہ راست اُگتے ہیں، اپنی جڑوں سے چٹان میں چھوٹی دراڑیں بنا دیتے ہیں۔
یہ جنگل ایک قدیم مرجان کی چٹان پر ہے اور جہاں چٹان مٹ گئیں ہیں وہاں گڑھے اور غار ہیں۔
راجرز کہتے ہیں ’میرے خیال میں جو چیز اسے خاص بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں چلنا واقعی مشکل ہے۔ آپ نوکیلے پتھروں پر چلنے کا تصور کریں۔‘
یہاں آنے والے نئے فیلڈ ٹیکنیشنز کو سروے کے دوران اس چٹان کی سطح سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کافی وقت درکار ہے۔ چنانچہ جب راجرز نے سنہ 2012 میں مکڑیوں پر ایک مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ جانتے تھے کہ یہ ایک چیلنج ہوگا۔
ہمیشہ یہ افواہیں پھیلتی رہتی ہیں کہ گوام خاص طور پر مکڑیوں والا جزیرہ تھا اور اس کا پرندوں کی عدم موجودگی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے جو عام طور پر مکڑیاں کھانا پسند کرتے ہیں۔
تاہم راجرز وضاحت کرتے ہیں کہ جزیرے کی تقریباً 180,000 آبادی شاذ و نادر ہی دوسرے شمالی ماریانا جزائر کا سفر کرتی ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ گوام پر کتنے ارچنیڈز نے قبضہ کر لیا تھا، راجرز اور ان کے ساتھی جزیرے کے جنگلات میں کراس سیکشنل سروے مکمل کرنے کے لیے نکلے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، محققین نے احتیاط سے اپنے پیروں کے نیچے کٹی ہوئی مرجان کی چٹان کے اوپر اپنا راستہ منتخب کیا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھے، سائنسدانوں نے احتیاط سے اپنے راستے میں جالوں کو شمار کرنا شروع کیا۔
سائنسدانوں نے پایا کہ یہاں مکڑیوں کی شاندار تناسب میں آبادی تھی۔ نم موسم کے دوران، گوام کے جنگلات میں قریبی جزائر روٹا، ٹینین اور سائپان کے مقابلے میں 40 گنا زیادہ مکڑیاں موجود تھیں، جب کہ خشک موسم میں جب مکڑیوں کی آبادی بہت زیادہ تھی۔ گوام پر 2.3 گنا زیادہ مکڑیاں تھیں۔ گوام پر کیلے کی مکڑیوں کے جالے بھی تقریباً 50 فیصد بڑے تھے۔
سال بھر، گوام کے جنگلات مکڑیوں کے جالوں سے جگمگاتے رہے: ٹیم کو نم اور خشک موسموں میں بالترتیب 1.8 اور 2.6 جال فی میٹر ٹرانسیکٹ لائن ملے۔
اگر گوام کے جنگلات کے پورے علاقے کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تعداد مجموعی طور پر 508 سے 733 ملین مکڑیوں کے برابر ہوگی، جو اپنے جالوں میں گھومتی ہیں اور اپنے شکار کا رس چوستی ہیں۔ یہ فی جالا ایک مکڑی کے حساب سے ہے حالانکہ اکثر اور بھی بہت سے جالے ہیں اور صرف وہی شمار میں آتے ہیں جو زمین سے دو میٹر دور تک ہیں۔
مکڑی کے جسم کے اعضا کے لحاظ سے جنگل میں کم از کم 4,064,000,000 آنکھیں ہیں جو گھورتی رہتی ہیں اور اس کی تعداد میں بالوں والی ٹانگیں بھی شامل ہیں۔
روٹا، ٹینین اور سائپان کے جزائر سانپوں سے پاک ہیں جس کی وجہ سے ان جنگلوں میں پرندوں کی اچھی خاصی آبادی موجود ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پرندوں کی غیر موجودگی کے باعث حالیہ دہائیوں میں گوام کی مکڑیوں کی آبادی معمول کے مطابق تھی۔
یہ جزوی طور پر آٹھ ٹانگوں والی مخلوق کے تئیں پرندوں کے میلان کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ اپنے شکار کے لیے آپس میں لڑتے ہیں۔
براؤن ٹری سانپ کی آمد کے بعد سے گوام پر کیلوں میں رہنے والی مکڑیوں کی زندگی اتنی آسان ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے جالوں میں نام نہاد 'استحکام' شامل کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
یہ معلوم نہیں ہے کہ مکڑیاں ان پراسرار سجاوٹ کو کیوں شامل کرتی ہیں، جو عام طور پر مبہم سفید دھاگوں سے بنے زگ زیگ پیٹرن پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ان کا کام پرندوں کو جالے کی موجودگی کے بارے میں خبردار کرنا ہے، تاکہ وہ حادثاتی طور پر ان میں اڑنے سے بچ سکیں۔ یہ خیال گوام پر موجود جالوں کی کمی سے مضبوط ہوتا ہے، جہاں پرندے نہیں ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے ساتھ ہی بٹ کوائن کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
ایک ضدی حملہ آور
اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بھورے درخت کا سانپ گوام کے ماحولیاتی نظام کے توازن کو بگاڑ رہا ہے لیکن دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد اسے وہاں لاتنے کے بعد سے اس حقیقت پر کم از کم چار دہائیوں تک کسی کا دھیان نہیں گیا۔
لیکن پھر سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں ماحولیات کو بچانے والے کچھ افراد نے یہ نوٹس کیا کہ کوئی چیز جزیرے کے پرندوں کو مار رہی ہے، لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔
جولی سیویج نے اس پراسرار قاتل کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس وقت پی ایچ ڈی کی طالبہ تھیں۔ پرندوں کی موت کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کی وجہ کیڑے مار دوا یا وائرس ہے۔ لیکن پھر سنہ 1987 میں شائع ہونے والی ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ حقیقت میں سانپ انہیں کھا رہے تھے۔
گوام کے زیادہ تر پرندوں کے پاس کوئی ارتقائی نظام موجود نہیں تھا جو انہیں سانپوں سے بچنے میں مدد کر سکے۔ نتیجتا، جب شکاری سانپ وہاں پہنچے تو انہیں بے دفاع پرندوں کی ایک شاندار دعوت ملی اور وہ جلد ہی ان کا کھانا بننے لگے۔
جب تک سیویج نے محسوس کیا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے تب تک پرندوں کی زیادہ تر انواع کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔ مثال کے طور پر، گوام کی فلائی کیچر چڑیا کو آخری بار سنہ 1984 میں جنگل میں دیکھا گیا تھا اور بڑی آنکھوں کے ساتھ پنکھوں والی اس چھوٹی گیند جیسی چڑیا کو اب معدوم سمجھا جاتا ہے۔
صرف حالیہ برسوں میں محققین نے بھورے درخت کے سانپوں کی وجہ سے ماحولیاتی افراتفری کے حقیقی پیمانے کو کھولنا شروع کیا ہے۔
یہ رینگنے والے جانور بدنام زمانہ ہیں۔ وہ رات کے وقت گوام کے جنگلات اور مضافاتی علاقوں میں خاموشی سے پھسلتے ہیں اور اپنی اگلی خوراک کے لیے ہوا سے ان کی خوشبو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
براؤن ٹری سانپ بظاہر کوئی عام شکاری سانپ نہیں ہیں۔ ان کے کھانے کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ ایسے جانوروں کو بھی کھا جاتے ہیں جو ان کے جسمانی وزن کا 70 فیصد تک ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک 60 کلو وزن کا انسان ایک ہی لقمے میں ایک سرخ کنگارو کو کھا جائے۔
حال ہی میں راجرز کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم سالی کے چوزوں کی بقا کی نگرانی کر رہی تھی۔ سالی دراصل سٹارلنگ نامی چڑیا کی ایک قسم ہے جو جزیرے کے شمال میں واقع امریکی فوجی تنصیب، اینڈرسن ایئر فورس بیس کے آس پاس زندہ رہنے میں کامیاب ہے۔
محققین نے نوجوان پرندوں کے ساتھ ریڈیو مانیٹر منسلک کیے اور ان کا پیچھا کیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ زیادہ تر سائنسی آلات بھورے درخت کے سانپوں کے نظام انہضام کا راستہ بتا رہے تھے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک دریافتیں ہوئیں: مردہ پرندے جنھیں نہیں کھایا گیا تھا۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ بہت سے بچوں کو سانپوں نے مارا اور پھر چھوڑ دیا۔ جب محققین نے ان کی لاشوں کو تلاش کیا، تو وہ سانپ کے تھوک کی باقیات میں ڈھکے پڑے تھے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جسے سائنسدانوں نے غیر رسمی طور پر سانپ کے 'لعاب' کے طور پر بیان کیا ہے۔
تقریباً آدھے معاملوں میں سائنسدانوں نے پایا کہ جو پرندے نگلنے کے قابل نہیں تھے، انھیں سانپوں نے مار ڈالا۔
لیکن بھورے درخت کے سانپ نہ صرف لالچی ہوتے ہیں بلکہ وہ انتہائی موثر شکاری بھی ہوتے ہیں۔ ان میں ایکروبیٹک مہارت ہوتی ہے جو انھیں انتہائی ناقابل رسائی جگہوں پر بھی شکار تلاش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
بقیہ سالی کو بھورے درخت کے سانپوں سے محفوظ رکھنے میں مدد کے لیے انھیں بچانے والوں کی ٹیم گھونسلے فراہم کر رہی ہے اور انھیں دھاتی 'بفلز' سے تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ یہ دھاتی بفلز دراصل پھسلن والے دھاتی کھمبے ہیں جو 0.9 میٹر لمبے اور تقریباً 15 سینٹی میٹر چوڑے ہیں کہ کوئی سانپ ان پر چڑھنے کے قابل نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے، وہ اس ہوشیار شکاری کے خصوصی ہنر سے بے خبر تھے۔
سیویج اب امریکہ کی کولوراڈو سٹیٹ یونیورسٹی میں فش، وائلڈ لائف اور کنزرویشن بائیولوجی کے شعبہ میں پروفیسر ہیں۔ سنہ 2021 میں سیویج کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے ان کا 'نوز کلائمبنگ' کا ہنر دریافت کیا جو سائنس کے لیے بالکل نیا ہے۔
پولاک کہتے ہیں: 'براؤن ٹری سانپ لفظی طور پر اپنے آپ کو ایک سیلینڈر کے گرد چکرا کے چڑھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی دم کو اپنے سر کے گرد لگا سکتے ہیں اور پھر اس طرح اوپر چڑھ سکتے ہیں جیسے انسان ناریل کے درخت پر چڑھتا ہے۔' پولاک نے سانپ میں اس تحقیق کو 'ہوش ربا' کہا ہے۔
ناقابل تلافی
حالیہ دہائیوں میں کنزرویشن اور جنگلی حیات کے اہلکاروں نے گوام سے بھورے درخت کے سانپ کو ختم کرنے کی کوشش میں ہر ممکن طریقہ استعمال کیا ہے۔
لیکن رینگنے والے جانور اب تک جنگ جیت رہے ہیں۔ انھوں نے اب تک ان کے خلاف بصری تلاشوں، ریپیلنٹ، اریٹینٹ، پھندوں، زہروں اور مہلک کیمیکلز کا استعمال کیا ہے۔
محققین نے ایسے وائرسوں کی بھی تلاش کی ہے جو بھورے درختوں کے سانپوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں، تاکہ دوسری جنگلی حیات کو متاثر کیے بغیر ان کی بڑی تعداد کو ختم کیا جا سکے۔
یہ طریقہ خرگوشوں میں مائیکسومیٹوسس کی طرح کام کرے گا جو ان کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش میں بڑے پیمانے پر (بشمول فرانس میں، غیر قانونی طور پر اور آسٹریلیا میں) کیا گیا لیکن اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دوسری تکالیف بھی پیدا ہوئی ہیں۔
لیکن شدید کوششوں اور سانپوں پر قابو پانے اقدامات کے باوجود انھیں قابل ذکر حد تک ختم کرنا ناممکن ثابت ہوا ہے حالانکہ اس سالانہ 3.8 ملین ڈالر کے اخراجات آ رہے ہیں۔ صرف چند استثنی ہیں اور ان میں زمین کے چند چھوٹے ٹکڑے آتے ہیں۔
مثال کے طور پر گوام میں اینڈرسن ایئر فورس بیس پر ہیبی ٹیٹ مینجمنٹ یونٹ کو ہی لے لیں۔ وہاں کے تجربے سے پتہ چلا ہے کہ عام طور پر بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے ملنے والی دوا ایسٹامنفین بھورے درخت کے سانپوں کے لیے خاص طور پر زہریلی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی 80 ملی گرام کی خوراک سے بڑے سے بڑے سانپ مر جاتے ہیں۔ 80 ملی گرام ایک معیاری 500 ملی گرام والی انسانی گولی میں پائی جانے والی مقدار کا تقریباً چھٹا حصہ ہے۔
وہاں ایک جامع پروگرام اپنایا گیا جس میں زہر آلود کھانے کے ساتھ ایک باڑ کی تعمیر بھی شامل تھی جس کے تحت پورے علاقے کے گرد ایک 'سانپ پروف' باڑ کی تعمیر کی گئی تاکہ اسے فوری طور پر دوبارہ وہاں آباد ہونے سے روکا جا سکے۔ اس بعد ہی کہیں جا کر ایئر بیس کے ارد گرد کے علاقے میں ان کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
بدقسمتی سے، بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گوام کے جنگلات سے اس طرح سے بھورے درخت کے سانپوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا خیال تو چھوڑ ہی دیں، نمایاں تعداد میں بھی ان کا ختم کرنا ناممکن ہو گا۔ حالانکہ ایسا کرنے کی جلدی ہے کیونکہ جنگل خود خطرے میں ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ گوام کے تقریباً 70 فیصد مقامی درخت اپنے بیجوں کو پھیلانے کے لیے پرندوں پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن آج کے پرسکون جنگل کے پریشان کن منظر نامے میں بہت سے درخت اپنے پھل کو براہ راست زمین پر گرا دیتے ہیں اور وہ وہیں سڑ گل جاتے ہیں اور انھیں دوسری جگہ منتقل کرنے والا پرندہ نہیں رہا۔
راجرز کا کہنا ہے کہ کچھ بیج اس وقت تک بالکل نہیں اگتے جب تک کہ گودا نہ کھا لیا جائے، جبکہ دوسرے اپنے آبائی درخت کے سائے میں بڑھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ پھلوں، گری دار میوے اور بیجوں کو کھانے والے پرندوں کی عدم موجودگی میں درخت بھی ناپید ہو رہے ہیں۔
جنگل میں بھی کھوکھلا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ایک صحت مند ماحولیاتی نظام میں جب کوئی درخت گرتا ہے تو وہاں ایک عارضی خلا پیدا ہوتا ہے اور وہ فوری طور پر شدید مقابلے کی جگہ بن جاتا ہے کیونکہ مختلف پودے اس جگہ کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
راجرز بتاتے ہیں: 'یہ ایسا ہی ہے کہ اگر آپ نیو یارک سٹی کے مرکز میں ایک عمارت کو گراتے ہیں جو کہ بنیادی ریل اسٹیٹ ہے اور پھر وہاں بہت سے لوگ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن گوام میں ایسا نہیں ہے۔'
بیجوں کو پھیلانے کے لیے پرندوں کے بغیر زمین پر اکثر ان کی کونپل پھوٹنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، اس لیے تخلیق نو کی رفتار انتہائی سست رہتی ہے۔ جنگل کا ڈھانچہ تبدیل ہو رہا ہے اور جلد ہی معمول پر آنے کا کوئی آسان راستہ نظر نہیں آتا۔
فی الحال صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ گوام کے براؤن ٹری سانپ اور ان کے سبب بننے والی مکڑی کی فوج وہاں محفوظ ہے۔ اور ان کا دور حکومت ابھی کچھ عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔