الیکشن کی دھول بیٹھ نہیں رہی، کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ صدر ٹرمپ کی باتیں مانے گی ۔۔۔؟ مظہر برلاس نے اہم انکشاف کر دیا

امریکی الیکشن کی دھول
لاہور (خصوصی رپورٹ) امریکی الیکشن کی دھول بیٹھ نہیں رہی، انتخابی مہم کا خاتمہ ہو گیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کام کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ امریکا میں انتخابی عمل اتنا خوبصورت ہے کہ الیکشن کے دن کوئی روک ٹوک نظر نہیں آتی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں کرے گی، صدر ٹرمپ کی باتیں مانے گی۔ سینئر تجزیہ کار مظہر برلاس نے اہم انشکاف کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کالعدم قرار
مظہر برلاس کی بصیرت
"جنگ" میں شائع ہونے والی اپنی بلاگ بعنوان "امریکا، برطانیہ اور ہم" میں مظہر برلاس نے لکھا ہے کہ کافی دنوں سے میری کوشش ہے کہ امریکا میں ہونیوالی کچھ سماجی تقریبات کے حوالے سے لکھوں مگر امریکی الیکشن کی دھول بیٹھ نہیں رہی، لہٰذا آج بھی اسی حوالے سے لکھنا پڑ رہا ہے۔
میں اس وقت برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ہوں، یہاں بھی امریکی سیاست کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر کہیں نہ کہیں گفتگو ضرور ہوتی ہے۔ پاکستانی میڈیا پر براجمان کچھ سادہ لوگ ایسی ایسی درفطنیاں چھوڑ دیتے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کی جانب سے وزیر قانون کو دھمکیاں ملنے کا معاملہ، وکلاءنے کل ہڑتال کا اعلان کردیا
اسٹیبلشمنٹ کا کردار
مان لیا کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہر جگہ ہوتا ہے مگر دنیا کی عظیم قوموں میں اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو بے پردہ ہونے سے بچاتی ہے۔ یہ سب کو پتہ تھا کہ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ امیدوار نہیں ہیں مگر یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے نہ تو الیکشن کے دن ٹھپے لگائے، نہ ہی کسی امیدوار کو تنگ کیا اور نہ ہی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، یہی وہ بنیادی فرق ہے جو فرسٹ ورلڈ کو تھرڈ ورلڈ سے ممتاز کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ سب کچھ آپ کی بدولت ممکن ہوا، آپ سرپرستی نہ کرتے تو یہ کامیابی حاصل نہ ہوتی، میٹرک امتحانات میں پنڈی بورڈ میں تیسری پوزیشن ہولڈر اکرام اللہ کی وزیراعظم سے گفتگو۔
ٹرمپ کی حکمت عملی
یہ حالات تو سب کے سامنے ہیں کہ ٹرمپ جب پہلی مرتبہ صدر بنے تھے تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بہت سی باتیں نہیں مانی تھیں بلکہ انہوں نے اپنی چلائی اور ریموٹ کنٹرول گھوڑا بننے سے انکار کر دیا تھا۔ لہذا اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے انتخابی عمل سے پہلے کچھ کانٹے بکھیرے جو ٹرمپ صاف نہ کر سکا۔ ٹرمپ نے اس الیکشن سے بہت کچھ سیکھا اور اگلے الیکشن کی تیاری شروع کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: چاہت فتح علی خان کا گانا سن کر مجسمہ بنا گولڈن مین بھی حرکت کرنے پر مجبور ہو گیا
بائیڈن انتظامیہ کی کوششیں
بلاگ میں مظہر برلاس نے مزید لکھا کہ بائیڈن نے جس طرح دنیا میں کھلواڑ کیا، اسی طرح امریکا میں کھلواڑ کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ پر ایسے مقدمات بنائے گئے کہ سیاسی پنڈتوں کو ایسا لگا کہ ٹرمپ کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے۔ جب مقدمات کے ذریعے ٹرمپ کو نہ ہرایا جا سکا تو اس کی انتخابی مہم میں گولیاں برسا دی گئیں۔ مگر امریکی نظام اتنا طاقتور ہے کہ اس سیدھے اور ننگے کھلواڑ پر امریکی سیکریٹ سروس کی سربراہ کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں: جسٹس جمال خان مندوخیل
امریکی انتخابی نظام کی خوبی
امریکی جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ اتنا ہی کر سکتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یعنی انتخابی مہم کے خاتمے تک غیر محسوس طریقے سے کسی امیدوار کی سپورٹ کی جا سکتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں جب انتخابی مہم کا خاتمہ ہو گیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کام کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ امریکا میں انتخابی عمل اتنا خوبصورت ہے کہ الیکشن کے دن کوئی روک ٹوک نظر نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے شکست، بھارتی چیفس آف ڈیفنس سٹاف عوام کو کرکٹ کی مثالوں سے تسلیاں دینے لگے
امن اور سادگی کی مثال
بلاگ کے آخر میں مظہر برلاس نے لکھا کہ پاکستان سے میرے شاگرد عزیز، شیراز علی خان نے عین امریکی انتخاب کے روز مجھے فون کیا۔ اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں سیکورٹی کے مسائل نہیں ہیں‘؟ میں نے اپنے شاگرد کی سادہ دلی پڑھ لی اور اسے بتایا کہ سیکورٹی کے مسائل کا پہاڑ وہاں کھڑا کیا جاتا ہے، جہاں گڑ بڑ کرنا مقصود ہو۔
نتیجہ
اب جب ٹرمپ الیکشن جیت چکے ہیں، امریکی اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں کرے گی، صدر ٹرمپ کی باتیں مانے گی۔ جمہوریت کے اس نظام کی اہمیت یہ ہے کہ وہاں ووٹ کا تقدس بحال ہے، اور ملکوں کے بینادی ادارے مضبوط ہیں، جو ہمارے ہاں موجود نہیں ہیں۔