زلزلہ متاثرین کیس؛ حکومت رقم دے دیتی تو لوگ اب تک خود گھر بنا چکے ہوتے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
سپریم کورٹ کی جانب سے زلزلہ متاثرین کی بحالی کی رپورٹس کا مطالبہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) اکتوبر 2005 زلزلہ متاثرین کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے حکومتوں سے پراگرس رپورٹ طلب کر لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قاضی فائز عیسیٰ: ‘اینٹی اسٹیبلشمنٹ’ جج جن کا دور سیاسی اور عدالتی تنازعات میں گزرا
جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ زلزلے کے بعد گھروں کی تعمیر کیلئے جنگلات زمین کیوں الاٹ کی گئی۔ زلزلے سے جہاں گھر گر گئے وہیں دوبارہ تعمیر کر دیتے، حکومت تعمیرات کے چکر میں پڑنے کے بجائے متاثرین کو رقم دے دیتی۔ اگر متاثرین کو رقم ملتی تو وہ اب تک اپنے گھر خود بنا چکے ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون محتسب کا جی سی یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا اچانک دورہ، سیکیورٹی سٹاف نے گیٹ پر روک لیا، توہین عدالت کا نوٹس جاری
عدالتی بینچ کے سوالات
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے سماعت کی۔ آئینی بینچ نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے متاثرین آباد کاری اور منصوبوں کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: پیٹرول مانگنے کے بہانے موٹر سائیکل سوار سر پر گولی مار کر قتل
وقت کی اہمیت
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ 2005 کا زلزلہ آئے 19 سال ہو چکے ہیں، اتنے عرصہ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو چکے ہوں گے، حکام نے متاثرین کی بحالی کیلئے اب تک کیا کام کیا؟
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کی گمشدگی: سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایڈووکیٹ جنرل کو طلب کیا
دوسرے ججز کے تبصرے
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی تباہیوں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ نشست و گفت و گو سے زیادہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں کچھ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: میو ہسپتال کے شعبہ امراض قلب میں طبی سامان کی شدید قلت ، آپریشن بند ،مریض پریشان ، احتجاجی مراسلے میں حیران کن انکشافات
موثر حکومتی کارکردگی کی ضرورت
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ زلزلہ متاثرین کی بحالی وفاق اور صوبے کے تعاون سے ہونی تھی۔ محکموں کی بیڈ گورننس اور عدم تعاون سے متاثرین مشکلات جھیل رہے ہیں۔ بیڈ گورننس کی وجہ سے معاملات عدالتوں میں آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قائداعظم یونیورسٹی میں طلبا کے دو گروپوں میں تصادم
مالی فنڈز کی شفافیت
جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ متاثرین کیلئے کتنے فنڈز آئے اور کہاں خرچ ہوئے۔ عدالتی سوالات پر جامع رپورٹ دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا اولین ترجیح ہے،آرمی چیف جنرل عاصم منیر
جنگلات کی کٹائی کا معاملہ
بعدازاں، جنگلات کی کٹائی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے وفاقی صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کی۔
یہ بھی پڑھیں: بین المذاہب ہم آہنگی، خواتین اور خواجہ سراؤں کی با اختیاری، پانی اور نکاسی آب کی بحالی: کراچی میں عوامی آگاہی مہم کا آغاز کر دیا
جنگلات کی زمین کا تحفظ
آئینی بینچ نے پوچھا ہے کہ جنگلات کے کتنے رقبہ پر قبضہ کیا گیا اور کتنے واگزار کرائے گئے۔ جنگلات کی کٹائی روکنے کے اقدامات اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن کیا گیا؟
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی کے معاملے پر پاک بھارت آمنے سامنے، امریکا کا ردعمل آگیا
مارگلہ ہلز کے معاملے پر تشویش
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مارگلہ ہلز کے پیچھے فارم ہاؤس اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز بن رہی ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور جنگلات رقبہ پر قبضہ کا بہت بڑا مافیا ہے۔ سرکاری حکام کی ملی بھگت سے تجاوزات اور کٹائی ہو رہی ہے۔
حکومتی پالیسی کی وضاحت
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جنگلات کی زمین کسی دوسرے مقصد کیلئے الاٹ نہیں ہو سکتی۔