ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی، کبھی کبھار کسی بھاگتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی، سارا شہر سو رہا تھا.
مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 86
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سموگ: پنجاب حکومت کا ‘گرین لاک ڈاؤن’ اور بھارت سے ماحولیاتی سفارتکاری کا منصوبہ
رات کا تجربہ
رات کو کھانے کے بعد نیل کنارے سڑک پر چہل قدمی شروع کی اور فوراً ہی تنہائی کا بڑا عجیب سا احساس ہوا۔ میں نے فوراً واپسی کا فیصلہ کیا، کیونکہ حیرت انگیز طور پر اسوان شہر سارے دن کی مصروفیات اور بھاگ دوڑ کے بعد یکدم خاموش ہوگیا تھا۔ رات کے 9 بجے کے قریب یہاں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی، کبھی کبھار کسی بھاگتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ سارا شہر سو رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلا ون ڈے: آسٹریلیا کیخلاف پاکستان کی 2وکٹیں گر گئیں
ادھورا ستون
اگلی صبح ہوٹل والوں سے بات کی تو انہوں نے ایک معقول معاوضے کے عوض مجھے دس بارہ امریکی سیاحوں کے ایک گروپ میں شامل کر دیا۔ ان کے ساتھ روانی سے امریکی لہجے میں بات کرنے والا ایک نوجوان گائیڈ تھا، جس نے بس میں بیٹھتے ہی سب سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور پھر مختصراً آج کے پروگرام بارے میں بتایا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات، سپیکر ایاز صادق سہولت کاری کیلئے تیار
مشہور چٹانیں
اس نے سب سے پہلے ہمیں اسوان شہر سے باہر ان چٹانوں پر لے جانا تھا، جہاں سے فرعون اپنے مقبروں، محلوں اور معبدوں کیلئے دیو قامت پتھر تراشتے تھے۔ پھر انہیں کشتیوں میں ڈال کر دریا کے ذریعے تھبیس اور گیزہ وغیرہ پر پہنچاتے تھے، جہاں ان کی پہلے سے طے شدہ مقامات پر تنصیب کی جاتی تھی۔ ان میں سب سے حیران کن وہ جناتی ستون تھے جن کی لمبائی 70-80 فٹ تک ہوتی تھی اور وزن 150-200 ٹن سے کم نہ ہوتا۔ یہ پتھر کے ایک ہی ٹکڑے سے بغیر کسی جوڑ کے تراشے جاتے تھے اور بعدازاں قدیم مصری زبان میں ان کے چاروں طرف صاحب ستون کی تاریخ کندہ کی جاتی تھی۔ مغربی ممالک میں ایسے دیوقامت ستونوں کو Cleapatra Needle یعنی قلوپطرہ کی سوئی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے کئی ستون قاہرہ اور الأقصر کے مندروں میں نصب ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے چند بڑے شہروں، جیسے لندن، پیرس، نیویارک میں بھی ان کو لے جا کر کھڑا کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی تاریخ کی مہنگی ترین انتخابی دوڑ، کس نے کتنا خرچ کیا؟
نقل و حمل کی مشکلات
یہ ستون اتنے وزنی تھے کہ انہیں بذریعہ کشتی لے جانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ بعض دفعہ تو کشتی ان کے وزن سے ڈوب بھی جاتی اور یہ دریا برد ہو جاتے۔ ایسا ہی ایک 65 فٹ اونچا اور تقریباً 200 ٹن وزنی ستون دریائے نیل کی تہہ میں دریافت ہوا ہے جو ابھی تک وہاں سے نکالا نہیں جا سکا۔
یہ بھی پڑھیں: ہوئے نہ لفظ ترے تیر یا کمند ہوئے۔۔۔
چٹانوں کا سفر
اس مقام کا فاصلہ ہوٹل سے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ گاڑی پندرہ منٹ میں ہی وہاں پہنچ گئی۔ یہاں بھوری سی گرینائیٹ چٹانوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا تھا، جس کو جگہ جگہ سے تراش کر قدیم مصری کاریگر اپنی مرضی کے مطابق ستون یا دوسرے پتھر بناتے تھے۔ ان منصوبوں پر اس خوبصورتی اور نفاست سے کام کیا جاتا تھا کہ مطلوبہ ستون، چبوتروں کے لیے مستطیل یا چوکور پتھر اور دیوہیکل مجسمے وغیرہ ایک ہی چٹان سے اور بغیر کسی جوڑ کے حاصل کر لئے جاتے تھے۔ پتھروں پر نقش کاری اور تحریر وغیرہ بھی یہیں کی جاتی تھی۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔