شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ اہداف پر اسرائیلی حملے: بشار الاسد نے مشتبہ ہتھیاروں کے ذریعے اپنی اقتدار کی گرفت کیسے مضبوط رکھی؟
اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ وہ شام پر مشتبہ کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل بنانے والے مبینہ مقامات پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ ہتھیار ’شدت پسندوں کے ہاتھ‘ لگ سکتے ہیں اور اسرائیل اس صورت حال کو روکنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج شام میں موجود ’بھاری سٹریٹجک ہتھیاروں‘ کو تباہ کر دے گی جن میں میزائل اور فضائی دفاعی نظام بھی شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، گزشتہ دو دنوں کے دوران اسرائیل نے شام میں درجنوں فضائی حملے کیے ہیں، جن میں ایک حملہ دمشق میں ایک ایسے مقام پر کیا گیا ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اسے ایرانی سائنسدان راکٹ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پیر کی رات دمشق کے قریب کیے گئے ایک اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شام سے آنے والی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں ’کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے ایک تحقیقی مرکز‘ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فضائی حملے اس وقت ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے نے شام میں حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ ذخیرے محفوظ ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایک مانیٹرنگ گروپ ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ساحلی اور جنوبی شام میں متعدد مقامات پر راتوں رات حملے کیے ہیں۔
ایس او ایچ آر کا مزید کہنا تھا کہ سابق حکومت کے خاتمے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے شدید فضائی حملے شروع کیے اور جان بوجھ کر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈپوز کو تباہ کر دیا۔
گزشتہ روز ہیئت تحریر الشام نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں ایک بیان جاری کیا جس میں ’ہتھیاروں اور حساس مقامات کی نگرانی میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کے لیے مکمل یقین دہانی‘ کا اعلان کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارا کیمیائی ہتھیاروں یا کسی بھی نوعیت کی تباہی پھیلانے کے ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ارادہ یا خواہش نہیں ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں ان سائٹس یا ہتھیاروں کو غیر ذمہ دارانہ ہاتھوں میں نہیں جانے دیں گے۔ ہم انھیں محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔'
یاد رہے یہ اعلان اس خدشے کے بعد سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر حلب کے جنوب میں کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ شامی باغی گروہوں کے ہاتھ آیا ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں سے کیا مراد ہے؟
اقوام متحدہ کے کیمیکل واچ ڈاگ آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز (او پی سی ڈبلیو) کے مطابق کیمیائی ہتھیار ایک ایسا ہتھیار ہے جو اپنی زہریلی خصوصیات کے ساتھ کسی کو مارنے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
او پی سی ڈبلیو کے مطابق ایسے گولہ بارود، آلات اور دیگر سامان جو زہریلے کیمیکلز سے ہتھیار بنانے کے لیے خاص طور پر تیار کیے گئے ہوں، ان کو بھی کیمیائی ہتھیاروں کی تعریف میں شامل کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ممنوع ہے، چاہے کوئی جائز فوجی ہدف موجود ہو یا نہ ہو۔
کیمیائی ہتھیار (سی ڈبلیو) کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ زہریلے کیمیکلز کی بنیاد پر تیار کئے جاتے ہیں جو کسی بم یا توپ کے گولے جیسے ڈلیوری سسٹم کے ذریعے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ تعریف تکنیکی طور پر درست ہے لیکن اس میں صرف محدود چیزیں شامل ہوں گی جنھیں کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن (سی ڈبلیو سی) کے تحت کیمیائی ہتھیار قرار دیا گیا ہے۔
سی ڈبلیو سی کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کی تعریف میں تمام زہریلے کیمیکلز اور ان کے precursors یا پیش رو شامل ہیں، سوائے اس کے کہ ان کو کنونشن کی اجازت کے تحت دیے گئے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس اجازت نامے میں مقدار کا تعین بھی شامل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کامیابی، مسرت اور ناموری چاہتے ہیں تو نرالا،انوکھا بلکہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اسکی طلب سے دستبردار ہوجائیں، آپ پریشان اور مایوس نہیں ہونگے.
کیمیائی ہتھیار کتنی اقسام کے ہوتے ہیں؟
چوکنگ یا دم گھٹنے والے ایجنٹ جیسے فاسجین پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر حملہ کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ مہلک نرو ایجنٹ ہوتے ہیں جو دماغ کے پیغامات کو جسم کے پٹھوں تک پہنچانے میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا قطرہ بھی بہت مہلک ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، 0.5 ملی گرام سے بھی کم ایک ایجنٹ ایک بالغ شخص کو مارنے کے لیے کافی ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سارین کو سائینائیڈ سے 20 گنا زیادہ مہلک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے exposure کے چند منٹوں کے اندر ہی دم گھٹنے سے انسان کی موت ہو سکتی ہے۔
ان تمام کیمیکل ایجنٹوں کو توپ خانے کے گولوں، بموں اور میزائلوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کی مدد سے بشار الاسد نے کس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی؟
بشار الاسد کی حکومت اور اُن کے روسی اتحادیوں پر الزام ہے کہ انھوں نے مارچ 2011 سے شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران مخالفین کے خلاف کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ تاہم اسد حکومت اور روس نے ان رپورٹس کی ہمیشہ تردید کی ہے۔
تاہم فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ شام کے پاس کتنے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں اور یہ کہاں ہیں۔
البتہ خیال کیا جاتا ہے کہ سابق صدر بشار الاسد نے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے رکھے ہوئے تھے اور سنہ 2013 میں انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے متعلق جو اعلان کیا تھا وہ ’غلط‘ تھا۔
یاد رہے اگست 2013 میں دمشق کے قریب شامی حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے ’غوطہ‘ میں کیے گئے ایک مبینہ کیمیائی حملے میں (جس میں نرو ایجنٹ سارین شامل تھا) 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مغربی ممالک اور شامی حکومت کے مخالف گروہوں نے اس حملے کا ذمہ دار بشار الاسد حکومت کو ٹھہرایا تھا تاہم اسد نے اس حملے کا الزام حزب اختلاف پر عائد کیا تھا۔
دمشق نے اس وقت اس حملے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تھی۔
اُس وقت امریکہ نے شام کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی لیکن پھر اسد کے اہم اتحادی روس نے اسے ملک میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے پر رضامند کر لیا۔
بین الاقوامی دباؤ اور دھمکیوں کے تحت بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو ختم کرنے پر رضامند ہوئے اور او پی سی ڈبلیو کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد شام میں 1300 ٹن کیمیکل کو تباہ کیے گئے تھے تاہم عالمی اداروں کے مطابق ملک میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے جاری رہے۔
اور بعد میں ہتھیاروں کے معائنہ کاروں نے ایسے شواہد دریافت کیے جو او پی سی ڈبلیو کی نگرانی میں 1997 کے کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے تھے۔
سنہ 2014 سے او پی سی ڈبلیو کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے شام میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال کے الزامات کی تحقیقات کی ہیں۔
انھوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ ستمبر 2013 سے اپریل 2018 کے درمیان 37 واقعات میں کیمیکلز کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا یا ان حملوں میں ان کے استعمال کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے بین الاقوامی کمیشن برائے انکوائری کے مطابق شام میں 18 دیگر واقعات میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
2018 میں Uses In Urdu کے تجزیے میں 164 رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ 2014 سے 2018 کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں کم از کم 106 بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ حملے شمال مغربی صوبے ادلب میں ہوئے۔ Uses in Urdu کے اعداد و شمار کے مطابق ہمسایہ صوبوں حما اور حلب اور دمشق کے قریب مشرقی غوطہ کے علاقے میں بھی بہت سے واقعات میں کیمیائی حملے ہوئے۔
یاد رہے یہ تمام علاقے جنگ کے دوران مختلف اوقات میں اپوزیشن کے گڑھ رہے ہیں۔
جن مقامات پر مبینہ کیمیائی حملوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ صوبہ حما میں کفر زیتا اور مشرقی غوطہ میں دوما تھے۔
دونوں قصبوں میں مخالف جنگجوؤں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔
سب سے مہلک واقعہ 4 اپریل 2017 کو صوبہ ادلب کے قصبے خان شیخون میں پیش آیا۔
4 اپریل 2017 کو شمالی شام کے خان شیخون میں گیس کے حملے میں تقریباً 100 افراد مارے گئے۔ او پی سی ڈبلیو اور اقوام ِ متحدہ کے مشترکہ تحقیقاتی مشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس دن رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد سارین سے متاثر ہوئی تھی۔
لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا زہریلا کیمیکل کلورین تھا۔
اقوام متحدہ کے کیمیکل واچ ڈاگ آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز کی تحقیقات کے مطابق خانہ جنگی کے دوران شام کی حکومتی فورسز نے سرین نرو ایجنٹ اور کلورین بیرل بموں کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
او پی سی ڈبلیو کے مطابق ان کیانویسٹیگیشن اور آئڈینٹیفکیشن ٹیم (آئی آئی ٹی) کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ 4 فروری 2018 کی رات سراقب کے خلاف حملوں کے دوران ایلیٹ ٹائیگر فورسز یونٹ کے زیر کنٹرول شامی عرب فضائیہ کے فوجی ہیلی کاپٹر نے کم از کم ایک سلنڈر گرا کر قصبے کے مشرقی حصے کو نشانہ بنایا۔
یاد رہے کلورین کا دوہرا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے جائز پرامن مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جاتا ہے لیکن سی ڈبلیو سی کے مطابق بطور ہتھیار اس کے استعمال پر پابندی ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ یہ سلنڈر پھٹنے سے زہریلی گیس کلورین خارج ہوئی جو ایک بڑے علاقے میں پھیل گئی جس سے 12 افراد متاثر ہوئے۔‘
لیکن Uses in Urdu کی ٹیم کی طرف سے میپ کیے گئے دیگر 105 حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟
جے آئی ایم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بلسٹر ایجنٹ سلفر مسٹرڈ پر مشتمل دو حملے جہادی گروپ دولتِ اسلامیہ نے کیے تھے۔ Uses in Urdu کے اعداد و شمار کے مطابق ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس نے تین دیگر مبینہ حملے بھی کیے ہیں۔