انڈیا میں کئی دہائیوں سے سرگرم ماو نواز باغی کون ہیں؟

انڈیا میں ماو نواز باغیوں کے خلاف کارروائی

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) انڈیا کی حکومت کئی دہائیوں سے سرگرم ماو نواز باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس تحریک کی آخری باقیات کو اگلے سال کے اوائل تک ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں خواجہ سراؤں کا بھارت کے خلاف احتجاج، مودی مردہ باد کے نعرے

بغاوت کا آغاز

نجی ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق، فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے مسلح ماو نواز باغیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے جنہوں نے 1960 سے اب تک 12 ہزار افراد کو ہلاک کیا۔ بغاوت کا آغاز 1967 میں جاگیرداروں کے استحصال کے خلاف ہوا۔ چینی رہنما ماوزے تنگ کے نظریات سے متاثر کشاورز نے ہمالیہ کے دامن میں واقع نکسل واڑی گاوں میں زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کل سے حج درخواستوں کی وصولی بند کرنے کا اعلان ہو گیا

بغاوت کا کچلنا اور حمایت کا حصول

آغاز میں غیرمنظم بغاوت کو تیزی سے کچل دیا گیا، لیکن اس نے دیگر مسلح گروہوں کو متحرک کیا اور زمین کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کیا۔ 1980 میں ان باغیوں نے حملوں کو پولیس اور پیراملٹری فورس تک پھیلانے کا عہد کیا اور جنگلوں میں چلے گئے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں موجود یہ جنگل ماو نواز باغیوں کے لیے گوریلا حملے کرنے کے بعد پناہ گاہ بن گئے۔ باغیوں نے قبائلی آبادی کی زمینیں حاصل کرنے اور فصل کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لئے مہم میں مدد کرکے حمایت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: 100 سے زائد بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے والے چوہے نے عالمی ریکارڈ بنادیا

تحریک کا عروج

2004 میں باغیوں کی تحریک اس وقت عروج پر پہنچی جب دو گروہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے کے لئے اتحاد کیا۔ پارٹی کی دستاویزات کے مطابق اس کا مقصد 'جنگ کے ذریعے ظالمانہ نظام کو ختم کرکے عوامی حکومت قائم کرنا تھا۔' اس وقت باغیوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار تھی اور یہ انڈیا کے ایک تہائی رقبے کے برابر اضلاع میں سرگرم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جن علاقوں میں جبلی کا بل نہیں بھرا جاتا وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی رہے گی : وزیر خزانہ

بھارتی حکومت کا ردعمل

باغیوں نے 'ریڈ کوریڈور' نامی علاقے میں حکومتی نظام مفلوج کر دیا اور متوازی انتظامیہ قائم کردی۔ ان علاقوں میں باغیوں کی مضبوط گرفت تھی اور حکومت کے لئے جاسوسی کا شک ہونے پر وہ کسی کو بھی مار دیتے تھے۔ 2010 میں چھتیس گڑھ میں گھات لگا کر کئے گئے ایک حملے میں 76 اہلکاروں کو مارا گیا جو باغیوں کی طرف سے انڈین سکیورٹی فورسز پر سب سے بڑا حملہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہنجروال میں تشدد سے کمسن ملازمہ جاں بحق، وزیر اعلیٰ نے رپورٹ طلب کر لی

عین موجودہ صورتحال

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2009 میں اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ماو نوازوں کی شورش انڈیا کو درپیش 'اندرونی سلامتی کا سب سے بڑا خطرہ' ہے۔ ان کی حکومت نے نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو ماو نوازوں کے ہاٹ سپاٹ میں تعینات کرنے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کی۔

آخری تجزیہ

پولیس کے مطابق اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے، اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بغاوت کو مسلسل کچلنا جاری رکھا ہے۔ چھتیس گڑھ میں پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے لیکن اس کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ مارچ میں انڈین پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 اور 2024 کے درمیان عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...