انڈیا میں کئی دہائیوں سے سرگرم ماو نواز باغی کون ہیں؟

انڈیا میں ماو نواز باغیوں کے خلاف کارروائی
نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) انڈیا کی حکومت کئی دہائیوں سے سرگرم ماو نواز باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس تحریک کی آخری باقیات کو اگلے سال کے اوائل تک ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیلم منیر اگلے ماہ دسمبر میں شادی کرنے والی ہیں، بڑا دعویٰ سامنے آیا
بغاوت کا آغاز
نجی ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق، فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے مسلح ماو نواز باغیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے جنہوں نے 1960 سے اب تک 12 ہزار افراد کو ہلاک کیا۔ بغاوت کا آغاز 1967 میں جاگیرداروں کے استحصال کے خلاف ہوا۔ چینی رہنما ماوزے تنگ کے نظریات سے متاثر کشاورز نے ہمالیہ کے دامن میں واقع نکسل واڑی گاوں میں زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے اس احتجا ج کا نتیجہ بھی پہلے جیسا ہوگا، طلال چودھری کا دعویٰ
بغاوت کا کچلنا اور حمایت کا حصول
آغاز میں غیرمنظم بغاوت کو تیزی سے کچل دیا گیا، لیکن اس نے دیگر مسلح گروہوں کو متحرک کیا اور زمین کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کیا۔ 1980 میں ان باغیوں نے حملوں کو پولیس اور پیراملٹری فورس تک پھیلانے کا عہد کیا اور جنگلوں میں چلے گئے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں موجود یہ جنگل ماو نواز باغیوں کے لیے گوریلا حملے کرنے کے بعد پناہ گاہ بن گئے۔ باغیوں نے قبائلی آبادی کی زمینیں حاصل کرنے اور فصل کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لئے مہم میں مدد کرکے حمایت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹی20، بابراعظم نے دو اہم ریکارڈ اپنے نام کرلیے
تحریک کا عروج
2004 میں باغیوں کی تحریک اس وقت عروج پر پہنچی جب دو گروہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے کے لئے اتحاد کیا۔ پارٹی کی دستاویزات کے مطابق اس کا مقصد 'جنگ کے ذریعے ظالمانہ نظام کو ختم کرکے عوامی حکومت قائم کرنا تھا۔' اس وقت باغیوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار تھی اور یہ انڈیا کے ایک تہائی رقبے کے برابر اضلاع میں سرگرم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہبازشریف 2روزہ دورے پر سعودی عرب روانہ ہو گئے
بھارتی حکومت کا ردعمل
باغیوں نے 'ریڈ کوریڈور' نامی علاقے میں حکومتی نظام مفلوج کر دیا اور متوازی انتظامیہ قائم کردی۔ ان علاقوں میں باغیوں کی مضبوط گرفت تھی اور حکومت کے لئے جاسوسی کا شک ہونے پر وہ کسی کو بھی مار دیتے تھے۔ 2010 میں چھتیس گڑھ میں گھات لگا کر کئے گئے ایک حملے میں 76 اہلکاروں کو مارا گیا جو باغیوں کی طرف سے انڈین سکیورٹی فورسز پر سب سے بڑا حملہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کاروباری حالات وینٹی لیٹر پر ہیں ، حکومت پابندیوں کی بجائے ماحول دوست گاڑیوں کو پروموٹ کرے: کار ڈیلر ایسوی ایشن کا مطالبہ
عین موجودہ صورتحال
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے 2009 میں اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ماو نوازوں کی شورش انڈیا کو درپیش 'اندرونی سلامتی کا سب سے بڑا خطرہ' ہے۔ ان کی حکومت نے نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو ماو نوازوں کے ہاٹ سپاٹ میں تعینات کرنے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کی۔
آخری تجزیہ
پولیس کے مطابق اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے، اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بغاوت کو مسلسل کچلنا جاری رکھا ہے۔ چھتیس گڑھ میں پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب ان کا اندازہ ہے کہ گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے 12 سو ہے لیکن اس کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ مارچ میں انڈین پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 اور 2024 کے درمیان عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔