سمہ سٹہ ایک بڑا جنکشن تھا، یہاں تقریباً تمام گاڑیاں ٹھہرا کرتی تھیں، اسے ہندوستان کے اندر جانے والی دوسری مرکزی لائن بھی کہا جاتا تھا

مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: عمرایوب کے بعد شبلی فراز نے بھی جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا
قسط
140
یہ بھی پڑھیں: مودی حکومت پر رافیل ڈیل میں کرپشن اور فراڈ کے الزامات کی دوبارہ گونج
سمہ سٹہ جنکشن
سمہ سٹہ جنکشن کراچی سے لاہور جاتے ہوئے بہاولپور شہر سے ذرا پہلے آتا ہے۔ یہ اپنے زمانے کا مصروف ترین اور انتہائی اہمیت کا حامل ایک بہت بڑا جنکشن ہوا کرتا تھا، قیام پاکستان کے بہت عرصے بعد تک یہاں تقریباً تمام گاڑیاں ٹھہرا کرتی تھیں۔
اس جنکشن سے 2 لائنیں بہاولنگر کی طرف سے ہو کر وسطی ہندوستان کی طرف چلی جاتی تھیں۔ ایک چشتیاں، بہاولنگر، امروکا، فیروزپور اور پھر دہلی تک اور دوسری بہاولنگر سے بٹھنڈہ سے ہوتی ہوئی دہلی کی طرف نکل جاتی تھی۔ لاہور سے امرتسر ہوتے ہوئے دہلی جانے والی لائن کے متبادل کے طور پر یہ دوسری لائن تھی جہاں سے گاڑیاں کراچی یا کوئٹہ کی طرف سے دہلی تک آتی جاتی تھیں۔ اسے ہندوستان کے اندر جانے والی دوسری مرکزی لائن بھی کہا جاتا تھا۔
سمہ سٹہ سے ایک برانچ لائن بہاول نگر سے ہوتی ہوئی صحرائے چولستان کے دوسرے سرے پر واقع ایک قصبے فورٹ عباس کی طرف بھی جاتی تھی۔ تینوں لائنوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہو جانے سے سمہ سٹہ اسٹیشن اب مکمل طور پر اجڑ گیا ہے، اب تو شاید کوئی پسنجر گاڑی ہی وہاں رکتی ہو۔ بڑی تعداد میں ریلوے کے عملے کے لیے بنائے گئے کوارٹرز بھی اب تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ یہ اسٹیشن بھی میرے دل کے بہت قریب ہے کہ ہم کراچی سے اپنے گاؤں جاتے ہوئے یہاں اتر کر بہاولنگر کے راستے فورٹ عباس جانے والی گاڑی تبدیل کرتے تھے۔ سمہ سٹہ، ویسے تو پنجاب کا ایک عام سا قصبہ ہے جہاں ایک بڑی آبادی ریلوے کے اپنے ملازمین کی رہتی تھی اور اب بھی یہاں زیادہ تر وہی لوگ اور ان کی آنے والی نسلیں آباد ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا پابند بنانے سے متعلق درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی گئی
بہاولپور
بہاولپور کراچی- لاہور لائن پر ایک بہت ہی مصروف اور خوبصورت اسٹیشن ہے۔ اس کی نئی عمارت، جو حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے، اتنی خوبصورت ہے کہ دور دراز سے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس عمارت کو بہاولپور کے نوابوں کے تعمیر کیے ہوئے "نور محل" کے ڈیزائن پر تعمیر کیا گیا ہے۔
یہاں بہاولپور کے نوابین کے ذاتی استعمال کے لیے تعمیر کیا گیا ایک خصوصی پلیٹ فارم اور انتظار گاہ بھی ہے جہاں ان کے دفاتر، ریاست کے امراء اور افسروں سے ملاقات کے لیے ہال کمرے اور ان کی اور اہل خانہ کے لیے ذاتی آرام اور خواب گاہیں بھی ہیں۔ اس انتظار گاہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ نواب صاحب کا ذاتی سیلون اس عمارت میں داخل ہو جاتا تھا، جس کے لیے مرکزی لائن سے ہٹ کر ایک علیٰحدہ پٹری بچھائی گئی تھی جو سیدھی اس عمارت کے خوبصورت ہال میں داخل ہو جاتی تھی اور وہیں سے نواب صاحب اور ان کے اہل خانہ اس سیلون میں سوار ہوتے تھے اور انجن کھینچتا ہوا ہال کے دوسرے سرے سے باہر نکل جایا کرتا تھا۔
بہاولپور، ملتان کے بعد جنوبی پنجاب کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ ڈویژن ہونے کے وجہ سے یہاں اس سطح کے تمام سرکاری ادارے موجود ہیں جن میں اعلیٰ عدالتیں، سرکاری تعلیمی ادارے، اور اونچے پائے کے وکٹوریہ اسپتال کے علاوہ کم از کم 3 سرکاری یونیورسٹیاں اور نجی کالج اور چند نجی یونیورسٹیوں بھی قائم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فیڈریشن سپین کے وفد کی کمیونٹی مسائل پر پولیس حکام سے ملاقات
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔