35 ملکوں کے 1400 سائنسدان ڈیڑھ کلومیٹر گہری سرنگوں میں کیا کر رہے ہیں؟

عام منظر
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکہ کی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں موجود سینفورڈ انڈرگراؤنڈ ریسرچ فسیلٹی (SURF) کے نیچے تقریباً 1500 میٹر گہرائی میں تین وسیع سرنگیں بنائی گئی ہیں، جنہیں سائنس کی ایک "تاریخی عبادت گاہ" قرار دیا جا رہا ہے۔ ان سرنگوں میں دنیا کے 35 ممالک سے تعلق رکھنے والے 1400 سے زائد سائنسدان ایک ایسا تجربہ کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر ہماری کائنات کے وجود کا راز فاش کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیلا روس کے صدر کی آج پاکستان آمد، اہم ملاقاتیں، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط شیڈول
نیوٹرینو کی تحقیق
انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق یہ سائنسدان ایک انتہائی باریک ذرہ، نیوٹرینو، کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کائنات کیسے بنی؟ ستارے، سیارے اور خود زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس مقصد کے لیے امریکہ اور جاپان کی دو ٹیمیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کام کر رہی ہیں۔ اس وقت جاپانی ٹیم سبقت لیے ہوئے ہے، لیکن امریکی سائنسدان بھی پیچھے نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کا قصور نہیں
ڈیپ انڈرگراؤنڈ نیوٹرینو ایکسپیریمنٹ (DUNE)
امریکہ میں "ڈیپ انڈرگراؤنڈ نیوٹرینو ایکسپیریمنٹ" (DUNE) کے تحت سائنسدان ایک ایسا ڈٹیکٹر بنا رہے ہیں جو نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو کے رویے میں فرق معلوم کر سکے۔ اس تجربے کے دوران طاقتور نیوٹرینو شعاعوں کو ریاست الی نوائے سے ساؤتھ ڈکوٹا بھیجا جائے گا، جو تقریباً 800 میل کا فاصلہ ہے۔ اگر نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو سفر کے دوران مختلف طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں، تو یہ دریافت اس سوال کا جواب دے سکتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد مادہ کس طرح اینٹی مادہ پر غالب آ گیا؟ یہی سوال اس بات کی بنیاد ہے کہ کائنات اور زندگی آج وجود میں کیوں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی آئی خان سے نجی کمپنی کے 11 ملازمین اغواء، 5 کو بازیاب کرا لیا گیا
جاپان کا ہائپر-کے پروجیکٹ
دوسری جانب جاپان میں "ہائپر-کے" نامی ایک نیا نیوٹرینو ڈٹیکٹر تیار کیا جا رہا ہے، جو "سپر-کے" کا جدید ورژن ہے۔ یہ سنہری روشنیوں سے جگمگاتا ہوا ایک عظیم الشان ڈھانچہ ہے، جسے سائنس کا "معبد" بھی کہا جا رہا ہے۔ جاپانی ٹیم اگلے تین سالوں میں اپنا نیوٹرینو بیم فعال کرنے کے قریب ہے، جس کی وجہ سے وہ امریکی منصوبے سے کئی سال آگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جے شاہ 35 سال کی عمر میں کرکٹ کی دنیا کا سب سے طاقتور آدمی کیسے بنے؟
برطانیہ کی سائنسدان کی رائے
تاہم برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی کی ڈاکٹر لنڈا کریمونیسی، جو ڈیون پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ جاپانی منصوبے میں ابھی بھی کچھ تکنیکی خامیاں ہیں جو نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو کے درمیان فرق کو واضح طور پر سمجھنے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
تحقیق کے نتائج
یہ سائنسی دوڑ ابھی مکمل نہیں ہوئی، لیکن دونوں منصوبے بیک وقت چلنے سے تحقیق کو نئی گہرائی اور وسعت ملے گی۔ حتمی جوابات آنے میں اگرچہ وقت لگے گا، لیکن یہ تحقیقی کوشش کائنات کے سب سے بڑے راز کو بے نقاب کرنے کی ایک اہم پیش رفت ہے۔