وہ مسلمان ہے بہت اچھی لڑکی ہے، اسے مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہتا، ہماری قلمی دوستی کا سلسلہ پاک و بھارت جنگ کے دوران بھی برقرار رہا

مصنف: رانامیر احمد خاں
قسط: 65
روز رحمان کے ساتھ قلمی دوستی
میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ قلمی دوستی سکول ٹائم سے لیکر کالج ٹائم تک میرا مشغلہ رہا ہے۔ یوتھ موومنٹ کی مصروفیات اور یونیورسٹی تعلیم کے دوران میرا یہ شغل تقریباً ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن قلمی دوستی کا یہ رشتہ بھارت آسام کے شہر شیلونگ کی ایک مسلمان طالبہ سے ایک عرصہ دراز تک قائم و دائم رہا۔ 1958ء میں جب میں گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا۔
اس دوران بہت سارے ممالک سے خطوط آتے تھے ان میں بھارت کی روشن رحمان جو اپنے گھر اور سکول میں روز Rose کے نام سے جانی جاتی تھی اس کے ساتھ 1963ء تک 5 سال یہ قلمی دوستی صرف خطوط کے تبادلے تک محدود رہی۔ میرا ہمیشہ سے یہ عزم تھا کہ میں تعلیم مکمل کرنے تک کسی لڑکی کے ساتھ پسند یا ناپسند کرنے والا تعلق نہیں رکھوں گا۔
چنانچہ ہماری اس قلمی دوستی میں کبھی جذباتی عامیانہ جذبات کا دخل نہ ہوا تھا۔ میں اپنے روزمرہ کے معاملات کالج، یوتھ موومنٹ اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں سرسری سے خطوط لکھتا رہتا تھا اور وہ بھی اپنی تعلیمی مصروفیات اور فرصت کے لمحات میں کیا کرتی تھی، اس کا ذکر اپنے خطوط میں کیا کرتی تھی۔
دوستی کا اختتام
مارچ 1965ء میں جب میں یوتھ موومنٹ کی سرگرمیوں میں بیحد مصروف تھا میں نے اس کے لکھے گئے خطوط اور اس کی تصویریں اپنے دوست جاوید مشرف کے حوالے کئے جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے برطانیہ جا رہا تھا اور اسے کہا کہ ”وہ مسلمان ہے اور بہت اچھی لڑکی ہے۔ اسے لائف پارٹنر کے طور پر سوٹ کرے گی۔ مجھے وکالت اور سیاست جیسی مشکل راستوں کو اپنانا ہے میں اسے اپنے ساتھ نتھی کرکے مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ بہتر ہے کہ آپ اس سے قلمی دوستی کر لیں یہ آپ کے لئے اچھی لائف پارٹنر ثابت ہوگی۔“
قبل ازیں بھی میں اسے چند ایک مرتبہ لکھ چکا تھا کہ اپنی مصروفیات کے باعث مجھے اپنی تعلیم پر فوکس کرنا ہوتا ہے سو اب قلمی دوستی سے کوئی شغف نہ رہا ہے لیکن چونکہ اس کے خطوط آتے رہتے تھے اس لئے میں جواب دینا اخلاقی فریضہ سمجھتا تھا۔ چنانچہ ہماری یہ دوستی لمبی ہوتی گئی۔
سکوت کی وجہ
بالآخر میں نے روز کے ساتھ قلمی دوستی کا رشتہ ختم کرنے کے لئے خطوط اور تصویریں اپنے دوست جاوید مشرف کے حوالے کر دیئے لیکن روز کو فی الوقت بتانا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ جب Rose کو جاوید خط لکھیں گے تو وہ مجھ سے ضرور اس بات کا ذکر کرے گی اور میں اسے صحیح صورت حال سے آگاہ کر دوں گا۔
1965ء کی پاک و بھارت جنگ اور تاشقند سمجھوتہ ہونے تک پاک و بھارت تمام روابط ختم ہو کر رہ گئے تھے اور خط و کتابت کا کوئی راستہ نہ رہا۔ چنانچہ میں نے(Rose) کی بے چینی کو بھانپتے ہوئے اْسے اپنے دوست جاوید مشرف کا آکسفورڈ یونیورسٹی لندن کا پتہ بھیج دیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ بھارت سے آنے والے خطوط مجھے بھیج دیا کرے اور Rose Rehman کو میرے خطوط بھارت بھیج دیا کرے اس طرح سے ہماری قلمی دوستی کا سلسلہ پاک و بھارت جنگ کے دوران بھی برقرار رہا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔