سوچ کو بانجھ کرنے کا المیہ

تحریر: رانا بلال یوسف
یہ بھی پڑھیں: ماہرہ خان کو دوسری شادی کے لیے کس نے راضی کیا اور سابق شوہر کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ جانئے
لاہور کی ایک شام
لاہور کی ایک ہلکی ٹھنڈی شام تھی۔ دن بھر کی گرمی سے تھکے ہوئے شہر پر خاموشی چھا رہی تھی، جیسے سب کچھ آہستہ آہستہ ہوا کے سپرد ہو رہا ہو۔ ہم دوستوں کی ایک نشست ’’ڈوگر ہاؤس‘‘ میں ہوئی — وہی پرانی بیٹھک، جہاں خیالات صرف لفظوں میں نہیں، نظریات میں ڈھلتے ہیں۔ بجٹ کا دن تھا، اور ملک بھر میں اعداد و شمار کی گرد چھائی ہوئی تھی۔ ٹی وی سکرینز پر وزراء کی تقاریر، سوشل میڈیا پر تجزیئے، اور ہر شخص کے ذہن میں یہی سوال گونج رہا تھا: ’’اس بار ہمارے لیے کیا بدلا؟‘‘ لیکن اس نشست کا سوال کچھ اور تھا — ’’بجٹ کے ان گنت اربوں میں، قوم کی فکری بقاء کا کیا حصہ ہے؟‘‘ اسی سوال نے گفتگو کو ایک ایسی فکری روداد میں بدل دیا، جس کے ہر لمحے میں علم، معاشرت، مذہب، اور ریاست کے زاویئے ایک دوسرے سے الجھتے اور سلجھتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگجو معتبر نہیں آتا۔۔۔
فکر کے مختلف زاویئے
اس بیٹھک میں صرف دوست نہیں، بلکہ فکر کے مختلف زاویئے جمع تھے — عبداللہ ڈوگر، جو قرآن فہمی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور قرآنی فکر کو معاصر سماجی و ذہنی حوالوں سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ طلحہ گجر، جس کی زندگی اقبالیات اور تعلیم کے رشتے میں پیوست ہے؛ سید فہد علی شاہ، جو بین الاقوامی فکری رجحانات، فلسفیانہ مکالموں، اور عالمی تجربات کے متلاشی ہیں؛ اور آخر میں ان سب کی فکری نشست کو نچوڑنے والی آواز — سعید ڈوگر صاحب، عبداللہ کے والد، جو ریاستی مالیاتی نظام میں 3 دہائیوں سے زیادہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یلغار کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے: سینیٹر اسحاق ڈار
گفتگو کا آغاز
گفتگو کا آغاز عبداللہ ڈوگر نے کیا۔ وہ آہستہ آہستہ بولے، لیکن ان کے الفاظ میں ایک گہری بصیرت تھی: ’’یہ بہت معنی خیز ہے کہ اسلام کا پہلا پیغام ’’اقْرَأ‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ کا حکم تھا۔ یہ پیغام صرف خواندگی کی دعوت نہیں تھا، بلکہ انسان کو خود شناسی، خالق شناسی، اور کائنات کی فہم کے سفر پر نکلنے کی تحریک تھی۔ مگر ہم نے اس ’’اقرأ‘‘ کو اعداد کی فائلوں میں دفن کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ؛پی ٹی آئی نے الیکشن ایکٹ ترمیم کیخلاف درخواست واپس لے لی
اقبال کا پیغام
اس کے بعد طلحہ گجر نے گفتگو سنبھالی۔ ان کی آواز میں اقبال کی تپش اور سماجی درد کی گہرائی تھی۔ وہ بولے: ’’اقبال نے کہا تھا: علم کی شمع سے ہے ظلمتِ شب کی تسخیر — مگر ہمارا بجٹ محض مالیاتی سکیم ہے، جو دکھاتا ہے کہ ہم شعور کی جگہ اطاعت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بجٹ، محض اعداد و شمار کا پلندہ نہیں ہوتا؛ یہ دراصل قوم کی فکری سمت کا تعین کرتا ہے۔ قوموں کی بقا بصیرت سے ہوتی ہے؛ اور بصیرت، صرف تعلیم سے جنم لیتی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ایک شخص مسجد کی چھت سے گر کر جاں بحق
سعید ڈوگر کا نقطہ نظر
پھر وہ لمحہ آیا جب سعید ڈوگر صاحب نے لب کشائی کی۔ ان کی آواز میں نہ طنز تھا، نہ تلخی — صرف ایک ٹھہری ہوئی سچائی۔ انہوں نے کہا: ’’بجٹ میں تعلیم کے لیے صرف 87 ارب روپے رکھے گئے، یعنی کل بجٹ کا محض 0.49 فیصد۔ بیٹا، یہ بجٹ نہیں، یہ سوچ کی سمت ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں پاکستان کا پہلا سرکاری آٹزم سینٹر بنائیں گے: وزیراعلیٰ مریم پنجاب
سکول کی یادیں
مجھے یاد ہے، میرے سکول کے زمانے میں ہمارے پرنسپل استاد طالب حسین صاحب کہا کرتے تھے کہ قومیں بلیک بورڈ سے بنتی ہیں۔ اور اس دن ڈوگر صاحب کی بات نے اسی سبق کو پھر سے تازہ کر دیا تھا کہ اگر ہم قلم کو کمزور کریں گے، تو قوم کی بنیادیں خود بخود لرزنے لگیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: یہ بیانیہ غلط ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں یا ہمارا کوئی جھگڑا ہے، علی امین گنڈا پور
غربت اور تعلیم
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ لیکن پھر انہوں نے ایک اور نکتہ چھیڑا: ’’غربت کا خاتمہ امداد سے نہیں، تعلیم سے ہوتا ہے۔ کتاب وہ واحد طاقت ہے جو انسان کو نہ صرف علم دیتی ہے بلکہ عزت، خودداری اور خود کفالت کا راستہ دکھاتی ہے۔ اور اگر ہم تعلیم کے لیے صرف دکھاوے کے پیسے رکھتے رہیں، تو ایک دن پوری قوم علم کی نہیں، محتاجی کی گود میں آنکھ کھولے گی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: قیامت کی نشانی؟ بھارتی لڑکی کی اپنے باپ سے مبینہ شادی کی ویڈیو وائرل
تعلیم کی اہمیت
آخری بات سید فہد علی شاہ نے کی۔ ان کی گفتگو میں عالمی تجربے، فلسفے، اور شعور کی مہک تھی۔ وہ بولے: ’’فریڈریکو میئر نے کہا تھا: تعلیم کوئی خرچ نہیں، یہ ایک سرمایہ کاری ہے۔ اور دنیا کی کامیاب اقوام نے یہ جملہ اپنی بجٹ پالیسی کا محور بنایا ہے۔ ونسٹن چرچل نے جنگِ عظیم دوم میں اعلان کیا: ‘مستقبل کی سلطنتیں وہ ہوں گی، جو ذہنوں پر قائم ہوں گی۔ یعنی طاقت کا سرچشمہ علم ہے۔ اور نیلسن منڈیلا نے کہا: تعلیم وہ سب سے طاقتور ہتھیار ہے جس سے دنیا کو بدلا جا سکتا ہے۔ یہ شعور جگاتا ہے۔ اور جو قومیں تعلیم کے اس ہتھیار کو تھام لیتی ہیں، وہ نہ صرف اپنے حال کو بدلتی ہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی نیا افق دیتی ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: افراد کی خوشنودی کو ٹھکرائے بغیر زندگی بسر نہیں کی جا سکتی، آپ کو اپنا ”وجود“ برقرار رکھنے کیلئے یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں
تعلیم کا اثر
اس گفتگو کے بعد میں کئی لمحے خاموش رہا۔ سوچتا رہا کہ جب تعلیم کو بجٹ میں پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے، تو درحقیقت قوم کے ذہن و دل کو بنجر زمین کی طرح ویران چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بے روزگاری صرف معیشت کا مسئلہ نہیں، یہ ایک فکری قحط ہے۔ جب نوجوانوں کو ہنر اور علم سے دور رکھا جائے، تو وہ یا تو ملک سے مایوس ہوکر ترکِ وطن کرتے ہیں، یا مایوسی کو شدت پسندی میں ڈھالتے ہیں۔ جب تعلیم سے محروم نسل پروان چڑھتی ہے، تو وہ نہ صرف ذاتی خواب کھوتی ہے، بلکہ قومی خواب کو بھی بے رنگ کر دیتی ہے۔ جہالت، صرف کتاب سے محرومی نہیں یہ رائے، رحم، اور روشنی سے بھی دوری ہے۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ لاعلم رعایا، ہر ظلم کو تقدیر سمجھ لیتی ہے۔ یہی بجٹ کے ذریعے سوچ کو بانجھ کرنے کا اصل المیہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے 3 رافیل سمیت پانچ طیارے کتنے ناٹیکل میل اور کتنی بلندی پر گرائے گئے؟ تفصیلات سامنے آگئیں۔
ترقی یافتہ اقوام کی مثالیں
ترقی یافتہ اقوام کی ترجیحات دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ علم، ان کے نزدیک صرف ایک وزارت نہیں بلکہ ایک قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ امریکہ اپنے قومی بجٹ کا تقریباً 4٪ تعلیم پر خرچ کرتا ہے، برطانیہ 5٪، چین 4٪، بھارت 2.5٪، اور سری لنکا — جو شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے — 6.9٪ اپنی کل آمدنی تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ یہ سب مثالیں بتاتی ہیں کہ اگر نیت ہو، تو وسائل نکالے جا سکتے ہیں — اور اگر وژن ہو، تو تعلیم کو مرکز میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کا وزیراعظم نریندر مودی اور پہلگام واقعہ سے متعلق بڑا دعویٰ
آخری خیالات
اگر بجٹ قوم کا آئینہ ہے، تو ہمیں اس میں اپنی شکستہ پیشانی، بند آنکھیں، اور زخمی ہاتھ صاف نظر آ رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم حساب کتاب سے آگے بڑھ کر شعور کی ترتیب کریں۔ تعلیم کو مرکز میں لانا محض فنانس کا مسئلہ نہیں، یہ قوم کی روحانی اور فکری بقاء کا سوال ہے۔ اگر ہم نے علم کو پھر سے محروم رکھا، تو ایک دن ایسا آئے گا جب کتاب صرف عجائب گھروں میں ہوگی۔
ختم شدہ سوچ
شاید یہ سب سوچ کر آج کی رات نیند کم آئے، لیکن کبھی کبھی بیداری بھی ایک نعمت ہوتی ہے۔۔۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔