24 اکتوبر کو عام انتخابات تھے، اللہ نے میرے گھر دوسرا چاند اتار دیا،”کاکا آ جا۔ کاکا آ جا“اسکی آواز بشارت تھی، دونوں بچے جڑواں بچوں کی طرح پالے.

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 201
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں دفاع کے لیے کتنے ارب روپے مختص کیے گئے؟
پنجاب کی گرانٹ کا ذکر
الیکشن سے قبل حکومت پنجاب نے پنجاب کی تمام یونین کونسلز کو ایک ایک لاکھ روپے کی گرانٹ دی جو آئی جے آئی کے امیدواران کے تجویز کردہ منصوبوں پر ہی خرچ کی جانی تھی۔ یہ ایک طرح کی رشوت بااثر افراد کے لئے تھی تاکہ وہ سرکاری امیدواران کو ووٹ دیں اور دلوائیں بھی۔ بہت سی جگہوں پر یہ رقم امیدواران اور میرے کولیگز کے درمیان ففٹی ففٹی کی ratio سے تقسیم ہوئی۔ مجھے بھی ایسی آفر آئی جے آئی کے نیشنل اسمبلی کے امیدوار سید منظورالحسن شاہ صاحب کی جانب سے ان کے چھوٹے بھائی نورالحسن شاہ صاحب نے با نفس نفیس دی تھی۔ میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔ یادرہے ان دنوں ڈیفنس میں کنال کا پلاٹ لاکھ سوا لاکھ کا مل جاتا تھا۔ 7 لاکھ کی رقم معمولی نہ تھی۔ بہرحال اللہ ہی جسے چاہے برائی سے بچا لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے امریکی صحافی کو ملٹری کمپاؤنڈ پر حملے کی رپورٹنگ سے روک دیا
نومولود کی آمد
احمد صاحب کی آمد اور میری پہلی موٹر؛ 24 اکتوبر کو عام انتخابات تھے اور اللہ نے اس سے 3 دن پہلے یعنی 21 اکتوبر 1990ء کو میرے گھر دوسرا چاند اتار دیا۔ جس روز اس نے میرے گھر آنا تھا، عمر جو ما شا اللہ ایک سال کو ہونے والا تھا صبح سے ہی رٹ لگائے تھا؛ "کاکا آ جا۔ کاکا آ جا۔" اس کی آواز یہ بشارت تھی کہ عمر کا بھائی آ رہا ہے۔ یہ بچہ جسے پہلے سعد اور بعد میں احمد کا نام ملا، شیخ زید ہسپتال میں عصر کے وقت دنیا میں آیا۔ ما شا اللہ یہ 8 پاؤنڈ کا، گول مٹول اور گورا چٹا تھا۔ 22 اکتوبر کو عظمیٰ ہسپتال سے گھر چلی گئی اور میں لالہ موسیٰ۔ یہ دونوں بچے ہم نے جڑواں بچوں کی طرح ہی پالے۔
یہ بھی پڑھیں: کسان نے اپنی خوش قسمت گاڑی دفنا دی
سفر کا نیا طریقہ
2 بچوں کے ساتھ اب ریل گاڑی یا فلائنگ کوچ سے سفر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ سو چا کوئی گاڑی وغیرہ کیوں نہ لی جائے۔ ابا جی کی مرسیڈیز چلا چلا کر مجھے اس گاڑی کی ڈرائیو کی عادت سی ہو گئی تھی۔ لہٰذا سوچا کیوں نہ کوئی سیکنڈ ہینڈ مرسیڈیز ہی خریدی جائے۔ اس کی 2 وجوہات تھیں؛ پہلی یہ کہ یہ پائیدار تھی اور میرے لمبے سفر کے لئے موزوں بھی۔ دوسری یہ کہ یہ دوسری موٹروں کے مقابلے ری سیل نہ ہونے کی وجہ سے سستی بھی۔
یہ بھی پڑھیں: گرمی سے ستائے پاکستانیوں کیلئے خوشخبری آ گئی
نئی مرسیڈیز کی خریداری
ابا جی نے اپنے مکینک منیر صاحب سے کہا؛ "کوئی اچھی سکینڈ ہینڈ گاڑی نظر میں ہو تو بتائیں۔" کچھ ہفتوں بعد اس نے ایک سفید رنگ کی سکینڈ ہینڈ مرسیڈیز 200 ڈی کا بتایا جو 90 ہزار میں ملی۔ 10 ہزار روپے میں نے دئیے، 70 ہزار والد صاحب نے اور 10 ہزار چندا نے۔ یہ 72 ماڈل تھی اور یہ 1991ء کا مارچ اپریل تھا۔ اب لاہور آنا جانا آسان ہو گیا تھا۔ سستا زمانہ تھا۔ گاڑی کی 62 لیٹر کی ٹینکی 225 روپے میں فل ہو جاتی تھی اور اتنے ڈیزل میں یہ 600 کلومیٹر سفر کر سکتی تھی۔
پہلی گاڑی کا چیلنج
پہلی موٹر خریدی تو گیراج کا مسئلہ بھی بنا۔ دفتر کے سامنے عزیز سٹیل ورکس کی دوکان تھی۔ اس کامالک عزیز جو ہمارے محکمے کا ٹھیکیدار بھی تھا نے لوہے کے فریم کا گیراج بنا دیا۔ لاگت شاید 5 ہزار روپے آئی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔