پٹیشن آرٹیکل 199میں داخل ہوئی، کیا ہائیکورٹ نے اپنا اختیار سماعت استعمال کیا؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سلمان اکرم راجہ سے استفسار

سپریم کورٹ کی سماعت میں اہم سوالات
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا پٹیشن آرٹیکل 199 میں داخل ہوئی؟ کیا ہائیکورٹ نے اپنا اختیار سماعت استعمال کیا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ پشاور ہائیکورٹ نے مکمل طور پر اپنا اختیار استعمال نہیں کیا، اور آٹھ ججوں نے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مندوخیل نے غلطیوں کو درست کیا۔
یہ بھی پڑھیں: احتساب کمیٹی نے سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کو کلیئر قرار دیدیا
قانون کی تاریخی تنقید
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین سے انحراف کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ ہر 10 یا 8 سال بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ گورنر جنرل غلام محمد کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا لیکن انہوں نے ایسا کیا۔ جسٹس منیر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گورنر جنرل کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد یونائیٹڈ کو جھٹکا، اہم کھلاڑی انجری کے باعث ایونٹ سے باہر ہو گئے
آئینی انحراف کے مضمرات
جسٹس جمال مندوخیل نے دوبارہ اس بات پر زور دیا کہ کیا ہائیکورٹ نے اپنا اختیار سماعت استعمال کیا؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے مکمل طور پر اپنا اختیار استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے یہ تشریح بھی کی کہ آرٹیکل 254 اس معاملے میں غیرمتعلقہ ہے۔ پیر صابر شاہ سمیت 3 کیس موجودہ صورتحال کا احاطہ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے امن، سلامتی اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہیں : اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار کا خطاب
کاغذات نامزدگی اور انتخابی عمل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کا معاملہ کاغذات نامزدگی سے شروع ہوتا ہے، کیا یہ اختیار ہمارے پاس ہے کہ کاغذات نامزدگی کو نہ مانیں؟ سلمان اکرم راجہ نے مزید بتایا کہ عدالت کے سامنے یہ ایشو ہے کہ کیا 10 ججوں کے فیصلے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اختیارات
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پاکستان میں کیوریٹو اختیار سماعت کا دائرہ کار نہیں ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی پوزیشن یہ ہے کہ موجودہ کیس میں 3/184 اور 187 آتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ سے زیادہ کرسکتی ہے اور اگر سپریم کورٹ بعض حقائق دیکھ سکے تو وہ اس کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتی ہے۔