معصوم بچے کو کیسے معلوم تھا کہ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک اس کے سامنے تھا، پھر بھی اس نے ہمت دکھائی اور اینٹ اٹھا کر کوبرے پر مار دی۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 202
اہمد، کو برا اور نواز
میرے گھر ایک بوڑھی عورت "مائی ڈنڈا" (وہ ڈنڈے کے سہارے چلتی تھی تو اس کا نام مائی ڈنڈا ہی پڑ گیا۔ ویسے اصل نام اماں عائشہ تھا) گھر کے کام کاج میں چندا کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ صفائی اقبال مسیح کرتا تھا۔ نواز چوکیدار تھا لیکن میرے گھر پر ہی رہتا تھا۔ ڈرپوک اور شرمیلا۔
ایک حیران کن واقعہ
حسب معمول میں دفتر تھا۔ گرمیوں کے دن تھے احمد آٹھ نو ماہ تھا اور عمر تقریباً پونے دوسال کا (ان دونوں بھائیوں میں ساڑھے گیارہ ماہ کا فرق ہے)۔ چندا احمد کو گھر کے مین دروازے کے پاس پانی کے پائپ سے نہلا رہی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور وہ فون سننے چلی گئی۔ نواز احمد کے پاس کھڑا تھا اور عمر کو کچھ دور کھڑا پانی کے پائپ سے کھیل رہا تھا۔ اتنے میں ایک کوبرا کہیں سے آ گیا۔ احمد اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ وہ پھن پھلا کر کھڑا ہو گیا۔ احمد چھوٹا سا معصوم بچہ کیا جانتا تھا کہ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک اس کے سامنے تھا۔ نا جانے نواز میں کہاں سے ہمت آئی اس نے دروازے کے سٹاپر کے طور پر رکھی اینٹ اٹھائی اور کوبرے پر لہرا دی۔
نواز کی بہادری اور ردعمل
وہ اُسے لگی ضرور، وہ زخمی ہو کر دوڑ گیا۔ ساتھ ہی نواز نے شور مچا یا تو میں اور رفیق وغیرہ دوڑتے گھر پہنچے۔ چندا احمد کو سینے سے لگائے رو رہی تھیں اور عمر کو ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی۔ لالہ نذر نے اپنے گاؤں سے "سکندر سپیرے" کو بلا بھیجا۔ خوش قسمتی سے وہ گھر پر ملا۔ آیا اس نے اپنی بڑی فن کاری دکھائی لیکن کوبرا کہیں جا چکا تھا۔ مجھے وہ بولا؛ "صاحب! زخمی سپ زندہ نئیں بچ دا۔ اودے زخم نوں کیٹریاں پے جان گیاں۔" اس نے اپنی پٹاری سے ایک شہد کی رنگت کی چیز نکالی اور کہا؛ "صاحب! جوگی نوں توں چنگے لگیاں اے۔ جوگی جناب نوں اے منکاتحفہ دیندا اے۔"
خوش قسمتی اور دعا
کدی سپ وڈے تے زخم تے رکھ دینا باقی کم منکا کر دیوے گا۔ خوش روؤ۔" اس نے بین نکالی اور گھر کے چاروں طرف کافی دیر تک بجاتا رہا پر زخمی سانپ کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ میں نے اسے کچھ رقم دی، وہ دعائیں دیتا چلا گیا۔ اللہ نے کسی ان دیکھی دعا کے بدلے میرے بچے کو بڑے حادثے سے بچا لیا تھا۔ کچھ دن بعد قریبی کھیت سے ایک مرا ہوا کوبرا ملا، جس پر لاکھوں چینٹیاں چمٹی تھیں۔ عین ممکن تھا یہ وہی ہو جو نواز کے ہاتھوں زخمی ہوا تھا۔
عمر کی کہانی
عمر، احمد کے آنے سے گھر کی رونق بہت بڑھ گئی تھی۔ عمر میری آنکھ کا تاراور اور می جی کا راج دلارا تھا۔ ان کی موجودگی میں کوئی اسے ڈانٹ نہیں سکتا تھا۔ ہم جب بھی لاہور جاتے عمر کو والدہ کچھ نہ کچھ پیسے ضرور دیتی تھیں۔ عمر رات 3بجے کے قریب اٹھ جاتا، دودھ پیتا، میرے ساتھ شرارتیں کرتا اور گھنٹے بعد میرے سینے پر لیٹ کر سو جاتا۔
امین کی محبت اور بہن کی دلیری
میں ہلتا تو اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ میرے بغیر یہ زیادہ دیر نہ رہ سکتا تھا۔ ایک بار یہ ماں کے ساتھ چند دنوں کے لئے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں یہ مجھے نہ دیکھ کر بیمار ہو گیا۔ اس کی نانی کہا کرتی تھیں؛ "یہ تو چھوٹا شہزاد ہے۔" یہ بیمار ہوا تو مجھے کہنے لگیں؛ "بیٹا! یہ تو تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا۔" اس دن کے بعد سے میں اسے اپنے ساتھ ہی رکھتا۔ اگر عظمیٰ لاہور رک جاتی تو یہ میرے ساتھ لالہ موسیٰ یا کھاریاں آ جاتا تھا اور مجال ہے اس نے کبھی تنگ بھی کیا ہو یا ماں کو یاد کیا ہو۔
احمد اور عمر میں فرق
احمد اس کے بالکل الٹ تھا، وہ ماں کا ایک منٹ بھی واسا نہیں کھاتا تھا۔ ایک بار ہم نے کھاریاں سے گول گپے لیے، عمر 3 سال کا ہوگا۔ اس نے سارے گول گپے توڑ دئیے۔ میں نے اسے ڈانٹا، جس ڈانٹ کا مجھے ایک بھی بہت قلق ہے۔ خود سے شرمندہ ہی ہوں کہ کیوں ڈانٹا تھا۔ اپنی پوتی امیرہ کو تو میں کسی کو ڈانٹنے ہی نہیں دیتا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔