قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں دماغی صلاحیت میں کمی کا انکشاف

قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کا دماغ اور درد کی حس
لا ہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کا دماغ درد کو محسوس تو کرتا ہے، مگر ان کا دماغ اسے سمجھنے اور اس پر مناسب ردعمل دینے کے قابل نہیں ہوتا۔
تحقیق کی تفصیلات
ڈان کے مطابق معروف طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کی پیدائش وقت سے پہلے ہوتی ہے، وہ جسمانی درد کو محسوس تو کرتے ہیں، مگر ان کے دماغ میں درد کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوتی۔
مطالعے کا طریقہ کار
یونیورسٹی کالج لندن کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں 372 نومولود بچوں کے دماغی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا، جن کی عمریں پیدائش سے قبل 32 ہفتے سے لے کر 42 ہفتے تک تھیں۔
دماغی نظاموں کا مشاہدہ
تحقیق کے دوران تین مختلف دماغی نظاموں کا مشاہدہ کیا گیا، جن میں:
- سنسری نیٹ ورک: یہ نیٹ ورک درد کی شدت اور مقام کا پتہ لگاتا ہے، جو 34 سے 36 ہفتے کے درمیان فعال ہونا شروع ہوتا ہے۔
- جذباتی ردعمل کا نیٹ ورک: یہ نیٹ ورک بچے کو تکلیف کا احساس دیتا ہے، جو 36 سے 38 ہفتے کے دوران بنتا ہے۔
- سمجھ بوجھ کا نیٹ ورک: یہ نظام 42 ہفتوں کے بعد ہی مکمل طور پر ترقی پاتا ہے اور درد کے معنی اور اس سے جڑی سوچ کو سمجھتا ہے۔
تحقیق کے نتائج
نتائج سے معلوم ہوا کہ اگرچہ بچے درد محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ درد کیوں ہے یا اس سے کیسے بچنا ہے، کیونکہ ان کا دماغی نظام ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا۔
گزشتہ تحقیق کی تائید
اس سے قبل 2023 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آچکی تھی کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو بار بار ہونے والی تکالیف کی عادت نہیں پڑتی، بلکہ ہر بار وہ نئی شدت سے درد محسوس کرتے ہیں۔ موجودہ تحقیق سے اس مشاہدے کی سائنسی وضاحت سامنے آگئی ہے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کے مطابق، طبی عملے اور والدین کو چاہیے کہ وہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو درد سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کریں، جیسے کہ درد کم کرنے والے طریقے، کم سے کم تکلیف دہ طبی عمل اور والدین کی اطمینان بخش موجودگی۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچوں کا دماغ درد کے بارے میں بڑوں سے بالکل مختلف انداز میں کام کرتا ہے، اسی لیے ہمیں ان کے لیے بھی وہی معیار اپنانا چاہیے جو ہم اپنے لیے اپناتے ہیں۔