ہم نے خاص و عام کے چکر میں ملک کا کیا حال کر دیا ہے، پسینے چھوٹ رہے تھے، ڈچ خاتون افسر نے ایسی بات کہہ ڈالی جو آج بھی ذہن سے نکل نہیں سکی

مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 204
یہ بھی پڑھیں: ہوائی بازی کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ، قطر امریکہ سے 200 ارب ڈالرز کے 160 ہوائی جہاز خریدے گا
پروجیکٹ کا مقصد
مقصد تھا کہ گاؤں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی پینے میسر آئے اور کھلے آسمان تلے رفع حاجت کے رجحان کو کم کیا جائے تاکہ لوگ بیماریوں سے نجات پائیں۔ یہ سلیب خاص specifications کے تحت تیار کئے جانے تھے۔ پری کاسٹ بنانے والی ایک فرم کو اس کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اور بلاول بھٹو کی ملاقات میں 27ویں ترمیم پر اتفاق جیسی کوئی بات نہیں ہوئی، رانا ثنااللہ
شکایات اور تحقیقات
میرے دفتر کا ایک وسیع ہال سامان کا سٹور تھا جہاں سے پورے ضلع کو سامان کی ترسیل کی جاتی تھی۔ پروگرام کے شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد فیلڈ سے شکایات موصول ہونے لگیں کہ؛ "اگر سلیب پر کسی جانور مثلاً گائے، گھوڑے وغیرہ کا پاؤں آ جائے تو یہ ٹوٹ جاتی ہیں۔" یہ شکایات یونیسف تک بھی پہنچ گئیں۔
لاہور سے یونیسف کی ڈچ ڈائریکٹر، لاہور ہیڈ کواٹرز سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (سی ڈی) میڈم زرین شوکت، گجرات سے اے ڈی ایل جی راجہ یعقوب اور اسٹنٹ انجنیئر محمد سرور میرے دفتر سٹور چیک کرنے پہنچے۔ یونیسف ڈائریکٹر نے randomly سلیب توڑنے کو کہا۔ دو نائب قاصد یہ کام کر رہے تھے۔ پہلی سلیب توڑی گئی تو اس میں سائیکل کے پہیہ ایسی تار جتنا "سریا" نکلا (اسے سریا کہنا تو سریا کی توہین ہی تھی)۔
دوسری اور تیسری سلیب ٹوٹیں تو ان میں بھی یہی کچھ تھا۔ اسٹنٹ انجنیئر نے مجھے اشارہ کیا؛ "اور مت توڑواؤ مگر ڈچ ڈائریکٹر کے کہنے پر چند ایک اور سلیب توڑی گئیں، ان کا بھی یہی حال تھا۔ مجھے یاد ہے ہیڈ کواٹرز سے آئی خاتون افسر کے پسینے چھوٹ رہے تھے، راجہ صاحب پریشان اور سرور کا رنگ اڑا تھا۔ ابھی اس سے بھی بڑی شرمندگی ہماری منتظر تھی۔
ڈچ خاتون افسر نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ایسی بات کہہ ڈالی جو آج بھی میرے ذہن سے نکل نہیں سکی۔ میرے لئے کیا یہ سبھی کے لئے انتہائی شرمندگی تھی۔ وہ بولی؛ "you Pakistani cheat, just see the specification and look what they had made."
اس کا یہ فقرہ عمر بھر کے لئے میرے ذہن پر نقش ہو گیا۔ سلیب بنانے والی فرم بلیک لسٹ کر دی گئی لیکن سرور جس کی نگرانی میں یہ بنی تھیں شکایت کے باوجود بھی ٹرانسفر نہ ہوا کہ وہ "چوہدریوں" کا "خاص" آدمی تھا۔ ہم نے خاص و عام کے چکر میں ملک کا کیا حال کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے آنے سے پہلے برے حالات تھے، آج ڈیفالٹ نہیں سٹاک ایکسچینج کے نئے ریکارڈ بننے کی آواز آتی ہے: مریم نواز
یونیسف پروگرام کا معائنہ
کرنانہ یونین کونسل میں یونیسف پروگرام کے معائنہ کے لئے لاہور ہیڈ کواٹر سے محترمہ زرین شوکت اسٹنٹ ڈائریکٹر (سی ڈی) تشریف لائیں۔ میں گجرات راجہ یعقوب کے پاس چلا آیا اور ہم تینوں اور ریاست ڈرائیور، پوٹھار جیپ میں سوار ہوئے اور کرنانہ روانہ ہو گئے۔
(کرنانہ یونین کونسل میری ذمہ داری کے حلقے میں تھی۔) جیپ راجہ یعقوب چلا رہے تھے۔ میں اور ریاست پچھلی سیٹ پر تھے۔ چند دن پہلے ہونے والی بارش سے یہ کچا راستہ کافی خراب تھا۔ بارشی پانی سے بچنے کے لئے ہم ریلوے لائن کیساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ راجہ یعقوب کی توجہ میڈم کی طرف تھی۔ اسی چکر میں گاڑی پٹری کی سمت بڑھی اور جیپ ایک جانب خطرناک حد تک جھک گئی۔ ڈر تھا کہیں الٹ نہ جائے۔
پریشانی اور کنفیوژن کے عالم میں راجہ صاحب نے اپنا ہاتھ زرین صاحبہ پر رکھ دیا۔ بڑے تحمل سے انہوں نے راجہ یعقوب کا ہاتھ اٹھایا اور بولی؛ "raja sahib take it easy." وہ کھسیانے ہوئے۔ ریاست کہنے لگا؛ "سر! جیپ آہستہ آہستہ دائیں طرف اتاریں۔" خیر جیپ سیدھی ہوئی تو جان میں جان آئی لیکن راجہ صاحب کے چہرے کی شرمندگی ابھی بھی عیاں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: علیمہ خان کا نام سفری پابندی کی فہرست میں شامل کرنے پر فریقین سے جواب طلب
کرنانہ میں استقبال
کرنانہ پہنچے۔ وہاں محمد خان، چیئرمین یونین کونسل نے استقبال کیا۔ پروگرام کی سکیم کا معائنہ کرایا شاباش لی۔ چیئرمین محمد خان ان پڑھ ہونے کے باوجود بڑے سیانے اور ڈیرہ دار شخص تھے۔ جیسا بے داغ سفید لباس پہنتے ویسا ہی بے داغ کردار تھا۔ وہ سفید پوش بڑا آدمی تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔