ترکیہ میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس جاری، ایران اور غزہ کی صورتحال پر توجہ مرکوز

استنبول میں او آئی سی کا اہم اجلاس
ترکیہ کے تاریخی شہر استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس جاری ہے، جس میں مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز اور خطے میں بگڑتی صورتحال زیر بحث ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کھانے کے دوران موٹاپے پر طنز کرنے اور “موٹو” کہنے والے 2 افراد پر گولیاں چل گئیں
اجلاس میں شمولیت
اجلاس میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سمیت 40 سے زائد ممالک کے سفارت کار شریک ہیں، جب کہ پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ او آئی سی کے اس پلیٹ فارم پر اسحاق ڈار اور عباس عراقچی ایک ساتھ نشستوں پر جلوہ افروز ہیں، جو علاقائی اتحاد و مکالمے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عیدالاضحیٰ پر 10 دن کی چھٹیوں کا اعلان
ایران کی صورتحال پر تفصیلی جائزہ
اجلاس کے دوران نہ صرف ایران میں حالیہ کشیدگی کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے بلکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی تناؤ، اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے خصوصی سیشن بھی منعقد کیا جائے گا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار پاکستان کا مؤقف پوری شدت سے پیش کریں گے، جس میں خطے میں امن، سفارتکاری اور یکجہتی کے اصولوں پر زور دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونا مہنگا
ایرانی وزیر خارجہ کا مؤقف
او آئی سی اجلاس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے میڈیا سے گفتگو میں دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا بھرپور حق رکھتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے 15 جون کو ہونے والے مذاکرات سے صرف دو روز قبل ایران پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنے کا خواہاں نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوہلی کے جانشین سمجھے جانے والے کرکٹر کا کیریئر ‘آئی پی ایل کی شہرت اور دولت’ کے باعث متاثر ہوا
ترک صدر کا خطاب
اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان بھی وزرائے خارجہ سے خصوصی خطاب کریں گے، جس میں وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحران، فلسطینیوں کی حالتِ زار اور مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر روشنی ڈالیں گے۔
اجلاس کے مضمرات
استنبول میں جاری یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، اور او آئی سی کے فیصلے مسلم دنیا کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔