منظوم میزائل اور غزلیاتی بمبار: اک عالمی ادبی جھڑپ

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی
ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ اقوامِ متحدہ نے مشورہ دیا:
“اب جنگ نہیں، صرف مشاعرہ ہوگا!”
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کا ‘براہمنوں کا شہر’ جو اپنی نیلی شناخت کھو رہا ہے
مشاعرہ کا آغاز
ایران نے پہلا وار کیا:
“مرغِ سحر بانگ دے، امن کی صدا بنے!”
اسرائیل نے چائے کے کپ سے قلم نکالا:
“ہم تلخ ہیں، تم شیریں سہی، مل بیٹھ کے نظم لکھ لیتے ہیں!”
یہ بھی پڑھیں: سینئر ٹی وی اداکارہ عائشہ خان انتقال کر گئیں
نظموں کی جنگ
مشاعرہ مورچوں میں بدل گیا۔ شاعر توپچی بنے، اور مائیکروفون سے حملے کیے گئے۔ شکست صرف اس کو ہوتی جس کا قافیہ بہک جاتا۔ جب اشعار کی گولہ باری تھم گئی تو امن کی میز سجائی گئی۔ میز پر نہ نقشے تھے نہ میزائل، صرف دیوانِ غالب، خسرو کی پہیلیاں اور ناصر کاظمی کی اداس نظمیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سے لاہور جانیوالے نجی ایئرلائن کے طیارے میں فنی خرابی ، واپس رن وے پر اتار لیا گیا
بین الاقوامی شرکت
امریکہ نے بھی اس عالمی مشاعرہ میں شمولیت اختیار کی لیکن اپنی مخصوص “اسٹریٹیجک شاعری” کے ساتھ۔ پاکستانی وفد کی قیادت فیض احمد فیض نے کی جو کہ مہمانِ خاص کے طور پر بلائے گئے تھے۔ انہوں نے ابتدائیہ میں کہا:
“بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے”
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے شیئرز کی نجکاری: بولی دہندگان کی اہلیت کے معیار سے متعلق درخواستیں طلب
روس اور چین کی شمولیت
روس نے ترجمہ کروایا، تالیاں بجیں اور اعلان ہوا کہ “اب ہماری سرد جنگ صرف ‘سرد نظموں’ تک محدود رہے گی۔”
چین کے شاعر نے جدید ہائیکو اور ملی نغموں کے امتزاج سے ایک نظم پیش کی:
“چائے میں ہے چینی
سلسلہ امن کا ہو
اشعار میں نرمی”
یہ بھی پڑھیں: خضدار: نامعلوم افراد کی فائرنگ سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نصیر مینگل کا بیٹا قتل، پوتا زخمی
ترکی اور دیگر شاعروں کی شرکت
ترکی نے رومی کو اپنا نمائندہ بنایا۔ جب رومی نے درویشانہ چکر لگاتے ہوئے کہا:
“بیرون ز تو نیست، ہر چہ بینی
در خود نگر، آنِ تست و بینی”
تو پوری دنیا یک زبان ہو گئی: “امن کا مرکز دل ہے”.
یہ بھی پڑھیں: بھارتی مسافر طیارہ ٹکرانے سے ہاسٹل میں موجود 5 ڈاکٹر ہلاک
مشہور شاعرین کی آراء
علامہ اقبال نے کلام پیش کرتے ہوئے فرمایا:
“نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”
راحت اندوری نے اپنے آتش فشانی انداز سے سامعین کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، پکار اٹھے:
“سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چُناؤ ہے کیا”
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ بیجنگ میں ملاقات کریں گے
ادب کا پیغام
اس موقع پر جون ایلیا یوں گویا ہوئے،
“میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا، اور ملال بھی نہیں!”
اس پر اسرائیلی وزیرِ شاعری نے سَر دھن کر کہا:
“اب اگر حملہ بھی ہوا تو صرف نثری نظموں میں ہوگا”。
یہ بھی پڑھیں: آئینی مقدمات کو اب تک سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں کیا جا سکا؟ وجہ سامنے آ گئی
محبت اور امید کی آواز
مشاعرہ کے سٹیج پر پروین شاکر آئیں۔ان کی آواز میں محبت کی شیرینی اور لہجے میں لفظوں کا جادو تھا،
“حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے”
یہ بھی پڑھیں: سموگ کے معاملےپر اصل حکمرانوں نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، خواجہ آصف
نئی دنیا کا آغاز
یہ سنتے ہی چین اور ترکی کے وفود نے کہا، “یہی وہ خوشبو ہے جس سے عالمی ہوائیں معطر ہونی چاہئیں۔”
حبیب جالب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم “دستور” پیش کی،
“ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا”
یہ بھی پڑھیں: گجرات کے عوام نے عمران خان کی کال پر باہر نکل کر مینڈیٹ چوروں کو مسترد کر دیا، پرویز الٰہی کی اہلیہ کا بیان
خلاصہ
اس مشاعرے کے بعد دنیا میں ایک نیا نظم پیدا ہوا، سفارتی نظام کو “ادبی ڈھانچے” میں ڈھالا گیا۔ ہر ملک کی وزارتِ خارجہ کو “وزارتِ قافیہ و بحر” کہا گیا جبکہ ہر ملک نے “وزارتِ دفاع” کو “وزارتِ لوح و قلم” میں بدل دیا۔
آخر میں
گلیوں میں اب ٹینک نہیں، اشعار گونجتے ہیں۔
“قلم جیتا، دل جیتے، دنیا جیت گئی”۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مشاعرہ میں موجود تھے، خوب شاعری کرتے ہیں اور اب نوبل امن ایوارڈ کے امیدوار بھی ہیں۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔