انفرادی کہانیاں نہیں — اجتماعی المیہ

تحریر :رانا بلال یوسف
ریاست کی ذمہ داری
ریاست، اگر واقعی ماں جیسی ہو، تو پھر ہر وہ بیٹا یا بیٹی جو پردیس میں ہو — روزگار کی تلاش میں، زیارت کی نیت سے، یا صرف ایک عارضی سفر پر — اُس کی خبرگیری ریاست کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں رشتہ صرف اُس وقت قائم محسوس ہوتا ہے، جب کوئی شہری دیارِ غیر سے زرِ مبادلہ بھیجے۔ اگر وہی مسافر کسی حادثے، گرفتاری یا سازش کا شکار ہو جائے — تو جیسے ریاست کی سماعت ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی سفارتی آواز، کوئی قانونی پیش رفت، کوئی نرم دلاسہ تک نہیں آتا۔ یہ خاموشی صرف غفلت نہیں — یہ اُس بند دروازے کی علامت ہے، جو صرف فائدے کے وقت کھلتا ہے، اور مصیبت میں مقفل ہو جاتا ہے۔
خاموش کہانیاں
یہ کالم اُن ہزاروں خاموش کہانیوں کی بازتاب ہے، جو پاکستان سے باہر قیدخانوں کی دیواروں میں دم توڑتی جا رہی ہیں — مسئلہ صرف یہ نہیں کہ جرم ہوا یا نہیں — جرم کا تعین تو ہر ملک کا نظامِ عدل کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے: کیا ریاست اپنے شہری کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جب وہ اجنبی سرزمین پر تنہا ہو؟ کیا ہمارے سفارتخانے صرف پرچم لہرانے اور تقاریر کرنے کے لیے ہیں، یا وہ کسی تنہا پاکستانی کے لیے بھی دروازہ کھولتے ہیں؟
صفیہ بی بی کی کہانی
وہ تنہا عورت، جو صفیہ بی بی کہلاتی ہے، اِس المیے کی زندہ علامت ہے۔ ایک عمر رسیدہ ماں، جو عمرہ کی نیت سے سری لنکا پہنچی، وہاں ایک نادیدہ سازش کا شکار بنی — اور پھر 6 سال تک اجنبی دیواروں کے پیچھے قید رہی۔ جب وہ واپس آئی، تو وطن نے اسے ماں کی آغوش کے بجائے، قانون کی زنجیروں میں دوبارہ جکڑ دیا۔
ذوالفقار علی کی داستان
ذوالفقار علی، جس کا تعلق خوشاب سے تھا، ان ہزاروں پاکستانیوں میں سے ایک تھا جو مشقت کی چکی میں پِس کر بھی روزانہ اپنے ملک کے لیے زرِ مبادلہ کماتا رہا۔ لیکن جب وہ ایک متنازعہ کیس میں ملوث پایا گیا، تو نہ صرف اسے سزائے موت سنائی گئی بلکہ ریاست نے اس کے لیے قانونی دفاع تک مہیا نہ کیا۔
اجتماعی المیہ
یہ صرف انفرادی کہانیاں نہیں — بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے۔ پراجیکٹ پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں کم و بیش 23,000 پاکستانی قیدی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے اکثریت اُن ممالک میں مقیم ہے جہاں لاکھوں پاکستانی محنت کش روزگار، حج، زیارت یا سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔
غفلت کا تسلسل
یہ غفلت نئی نہیں — بلکہ برسوں پر محیط ہے۔ 2010 میں سپریم کورٹ نے وزارتِ خارجہ کو ہدایت دی کہ بیرونِ ملک قیدیوں کے لیے ایک جامع قونصلر پالیسی تیار کی جائے۔ لیکن 2025 آ گیا — اور وہ پالیسی اب بھی صرف کاغذ پر موجود ہے، زمینی حقیقت سے کوسوں دور۔
قونصلر پالیسی کی ضرورت
ہمیں ایک واضح ’’قونصلر پالیسی‘‘ چاہیے — جو غیر ملکی جیلوں میں قید ہر پاکستانی کے لیے قانونی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر تحفظ مہیا کرے۔
خواتین کی حفاظت
آخری سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف زرِ مبادلہ بھیجنے والوں سے محبت رکھتے ہیں — یا انسانوں سے بھی؟ اگر کوئی پاکستانی دیارِ غیر میں کسی سازش یا ناانصافی کا شکار ہو جائے — تو کیا ہماری ریاست اُس کا دروازہ بند رکھے گی؟
یہ کالم ایک صدا ہے — اُن کے لیے جو غیر ملکی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے خاموشی سے سسک رہے ہیں۔ آئندہ جب کبھی کسی قیدی کی وطن واپسی کی خبر سنیں — تو یہ سوال بھی اٹھائیں: کیا ہمارا آئین اُس کے ساتھ تھا؟
نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں