اختلاف رائے اور تنقید ہم برداشت ہی نہیں کر سکتے، سیاستدانوں کے بس میں ہو تو مخالفین کی گردن ہی دبوچ لیں، ہم عوام کو ریلیف دینے کے قائل ہی نہیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 213
ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال
ترقی یافتہ ملکوں پر نظر ڈالیں وہاں سیاست دان اور افسر شاہی مل کر عوامی مشکلات کم کرنے میں لگے ہیں۔ میرے ایک انکل جو اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن گئے، انہوں نے بتایا کہ ”میں لائیبریری میں کسی کتاب کی تلاش میں تھا۔ مجھے پریشان دیکھ کر لائیبریرین میرے پاس آیا اور دھیمے سے بولا؛ how can I help you, sir کہتے مجھے اپنے ملک کی یاد آ گئی جہاں یہ پوچھا جاتا تھا how can you help me۔
سیاستدانوں کی ذمہ داری
میں نے کئی بار خود سے دو سوال ضرور کئے تھے؛
پہلا؛ “کیا ہم سیاست دان مل کر عوام کی بہتری کے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟“
دوسرا؛ “کیا ہم سیاسی مداخلت کو بالا ئے طاق رکھ کر بہتر گورنس سے عوام کو سکون پہنچا سکتے ہیں؟“ یہ بحث طلب بات تو ہے مگر موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ اختلاف رائے اور تنقید ہم برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ
یہاں اگر سیاست دانوں کے بس میں ہو تو وہ مخالفین کی گردن ہی دبوچ لیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ فاطمہ جناح کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لے کر عمران خان کی پی ٹی آئی تک سفر اس بات کا ثبوت ہے۔ ہم عوام کو ریلیف دینے کے لئے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں۔
مقامی حکومتوں کی ضرورت
اسی وجہ سے گورنس کی تیسری سطح یعنی مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے سے گریزاں رہے ہیں اور کبھی یہ حکومتیں قائم ہو بھی جائیں تو انہیں اس قدر لولا لنگڑا کر دیتے ہیں کہ نہ وہ عوام کے لئے کوئی آسانی پیدا کر سکتیں ہیں اور نہ ہی اس حساس سے کام کر سکتی ہیں جیسے ترقی یافتہ ممالک میں یہ ادارے کرتے ہیں۔
برادری ازم کا اثر
مقامی حکومت کے انتخابات میں برادری کا عنصر کل بھی تھا اور آج بھی ویسا ہی ہے۔ برادری ازم نے بھی اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے جتنا اشاروں پر ناچتی افسر شاہی نے۔ یہ سب کچھ ہمارے شعور اور سوچ کی ناپختگی کی علامات ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسند حکومت پر جو بھی آیا اس نے اپنی برادری کو نوازا بھی خوب۔
ماضی کے تجربات
ضیاء الحق کا دور دیکھ لیں، نواز شریف کا دور دیکھ لیں، پرویز الٰہی زرداری کا دور دیکھ لیں، سبھی نے اپنی اپنی برادری کو خوب پروان چڑھایا۔ الیکشن ختم ہو گئے تھے۔ چیئرمین یونین کونسل چارج لے چکے تھے۔
نئی ذمہ داریاں
قلعہ سوبھا سنگھ ایک گاؤں ہی تھا جہاں لاہور کے رہنے والے کا دل کہاں لگنا تھا۔ سوچا کہیں اور قسمت آزمانی جائے۔ اللہ سبب بنانے والا تھا۔ سرکار نے مجھے کھاریاں ٹرانسفر کا پروانہ ہاتھ تھمایا۔ کھاریاں میں 9سال سے تعینات پراجیکٹ منیجر صداقت خان ایک نیا سرپرائز لئے میرے منتظر تھے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔