غلطی انسانی فطرت، جج سے بھی ہو سکتی، بدنیتی ثابت کرنا لازم ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے ریمارکس کا تجزیہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے متعلق سخت ریمارکس خارج کر دیے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ جونیئر ججز پر سخت ریمارکس دینے سے پہلے تحقیق اور احتیاط ضروری ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غلطیاں انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور ججز بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ بدنیتی ثابت کرنا بھی لازم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملبہ گرنے کا خطرہ، اسرائیلی سٹاک مارکیٹ کے قریب کئی عمارتوں کو سیل کر دیا گیا
انسداد دہشت گردی عدالت کا پس منظر
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، انسداد دہشت گردی عدالت کراچی کے جج ذاکر حسین نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ اور ریمارکس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جسٹس محمد مظہر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی اور 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بااثر ممالک نے ایران کے خلاف ووٹ دینے کا کہا لیکن ہم نے۔۔۔؟ اسحاق ڈار نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا
سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے اثرات
انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج ذاکر حسین کے دو عدالتی احکامات سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیے تھے۔ ہائیکورٹ نے اس بات پر اعتراض کیا کہ ملزم کو پولیس کی بجائے جوڈیشل کسٹڈی میں دینے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم بیان جاری کر دیا
سخت ریمارکس کے خلاف کارروائی
سندھ ہائیکورٹ کے جونیئر جج کے خلاف سخت ریمارکس کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا ہے۔ تاہم، پٹیشنر جج کا انتظامی عہدہ بحال نہیں کیا جا سکا کیونکہ نیا جج مقرر ہو چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا
عدلیہ کے اصول و ضوابط
عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ سخت عدالتی ریمارکس ججز کے کیریئر پر دائمی اثرات چھوڑ سکتے ہیں اور عدلیہ میں باہمی احترام اور ڈسپلن کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ان ریمارکس کا اخبارات یا فیصلوں میں آنا ہمیشہ کے لیے ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انٹربینک میں ڈالر سستا ، نئی قیمت سامنے آ گئی
ججز کی رہنمائی
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایسے الزامات کو خفیہ رپورٹ کے ذریعے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بھیجا جائے۔ عدالتیں جونیئر ججز کی رہنمائی کریں، نہ کہ تنقید۔ پٹیشنر کو دفاع کا موقع نہ دینا آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ کے امید افزا نکات
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سخت ریمارکس زبانی الزامات کی بنیاد پر دیے گئے، جو ناقابل قبول ہیں۔ جج کی تحقیر عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو متاثر کر سکتی ہے۔ غلطی انسانی فطرت ہے اور ججوں کے لیے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ انہیں بھی غلطیاں کرنے کی اجازت ہے، مگر بدنیتی ثابت کرنا لازمی ہے۔