مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم پنجاب کے اجلاس میں کہا گیا کہ جو حکومت حزب اختلاف کے لیڈر کی حفاظت کرنے کے قابل نہ ہو، اسے حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔

مصنف اور قسط کی تفصیلات

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 123

یہ بھی پڑھیں: پی ایف یو جے دستور گروپ کی پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری

اجلاس کی تفصیلات

16 جون 1994ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم پنجاب کا ایک ہنگامی اجلاس زیر صدارت محمد زمان قریشی چیف آرگنائزر منعقد ہوا جس میں میاں محمد نواز شریف صدر پاکستان مسلم لیگ کی کار پر حملہ کے واقعہ کی پرزور مذمت کی گئی۔ یہ واقعہ پیپلز پارٹی اور چٹھہ لیگ، حکومتوں کی نااہلی اور سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ایک سازش کا نتیجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی غیر یقینی صورتحال میں علاقائی تجارت کو فروغ دیا جانا چاہئے: وزیر خزانہ

اجلاس کی قرارداد

اس اجلاس کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ جو حکومت حزب اختلاف کے لیڈر کی حفاظت کرنے کے اہل نہ ہو اْسے حکومت کرنے کا استحقاق نہیں ہے۔ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس واقعہ کی ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کروائی جائے اور اصل حقائق عوام کے علم میں لائے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کا حفاظتی ضمانت کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع

شرکاء کی فہرست

اجلاس میں کرنل مشتاق احمد طاہر خیلی، رانا امیر احمد خاں، ملک نصیر اسلم، عبدالحمید طاہر قصوری، سید سہیل احمد، چودھری عبدالرشید مونن، محمد شریف چوہان، رشید احمد اشغب، رانا مشہود احمد خاں اور دوسرے وکلاء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ن لیگیوں کی نیندیں اڑ گئیں: بیرسٹر سیف

قرارداد بابت عدالت عالیہ میں جیالے ججوں کا غیر آئینی تقرر

20 اگست 1994 ء کو میں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کے غیر آئینی تقرر کے خلاف، لاہور ہائی کورٹ بار سے ذیل قرارداد منظور کروائی:
"بینظیر بھٹو کی حکومت نے 1993ء میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے کچھ عرصہ بعد لاہور ہائی کورٹ میں 20 نئے ججوں کو بطور ایڈیشنل جج تعینات کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کا یہ اقدام پاکستان کی عدلیہ پر بم گرانے کے مترادف ہے کیونکہ تین چار تقرریوں کو چھوڑ کر باقی تمام جج جیالے کارکنوں میں سے لئے گئے ہیں۔ "

یہ بھی پڑھیں: 85 ارب کی متوقع قیمت پر صرف 10 ارب روپے کی بولی: کیا ‘باکمال لوگوں’ کی ایئرلائن کی نجکاری مزید پیچیدہ ہو گئی؟

عدالت کے انتظامات پر تنقید

اس طرح تقرریاں آئین کے آرٹیکل 193 میں طے کردہ میرٹ کی صریحاً خلاف ورزی، اہلیت کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی وابستگیوں کے پیشِ نظر کی گئی ہیں۔ آئین کے تحت صرف ایسے فعال وکلاء کو جج مقرر کیا جا سکتا ہے جو گزشتہ دس برس تک ہائی کورٹ میں مسلسل وکالت کرتے رہے ہوں اور اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پیش ہوتے رہے ہوں، نہ کہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کا لائسنس لینے کے بعد آپ ہائی کورٹ میں کبھی پیش ہی نہ ہوں۔

ایسے لوگوں کی تقرری غیر آئینی قرار دی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں اپنی مرضی کے جج مقرر کر کے حکومت، انتظامیہ عدلیہ پر غلبہ حاصل کرنے اور اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایئر ہوسٹس سے اداکارہ: ازیکا ڈینیئل کا ڈراموں کی آفر کا انکشاف

سینیارٹی اور عدلیہ کی روح

سینیارٹی کی روایت کو توڑ کر چار نمبر کے چیف جسٹس لگانا، ریٹائرڈ ججوں کو چیف جسٹس مقرر کرنا، بے لاگ اور بلند پایہ ججوں اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کو ٹرانسفر کر کے شریعت بنچوں میں تعینات کر دینا، ذہنی طور پر ایسے پست قامت وکیلوں کو اعلیٰ عدلیہ کے جج مقرر کرنا جنہیں اگر سول ججی کے امتحان میں بٹھایا جائے تو فیل ہو جائیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج مقرر کرتے وقت ان کے کردار، اہلیت، موزونیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی سیاسی وابستگیوں کے باعث ان کو جج لگانا، عدالتی وقار کو ملیامیٹ کرنے اور معاشرہ کو ناانصافی سے دوچار کرنے اور آئین و میرٹ کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...