وہ جذباتی اور تاریخی حوالوں کے ساتھ شدید تکنیکی حملے کر رہا تھا، میری طرف سے بھی جواب میں گولے داغے جا رہے تھے، ہم دونوں ہی شدید تھک چکے تھے
مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 24
یہ بھی پڑھیں: علی ظفر نے سعودی عرب میں سب سے بڑا کنسرٹ کرکے تاریخ رقم کردی
بات چیت کا آغاز
پہلے تو بات چیت محض تاریخی حوالوں اور دلیلوں تک ہی محدود رہی، تاہم بعدازاں اس میں جھنجھلاہٹ اور غصے کا عنصر شامل ہوتا گیا۔ کھلم کھلا ایک دوسرے کے ملکوں اور قومی رہنماؤں کو برا بھلا کہا جانے لگا۔ اس کے منہ سے جھاگ جاری تھی اور وہ مجھ پر جذباتی اور تاریخی حوالوں کے ساتھ شدید قسم کے تکنیکی حملے کر رہا تھا۔ میں بھی کانپتے ہونٹوں اور بلند آواز میں اپنے وطن کی حرمت کا بھرپور دفاع کر رہا تھا۔ اسی رفتار سے میری طرف سے جوابی کارروائی کے گولے داغے جا رہے تھے۔ ہم دونوں ہی اس چیخ و پکار سے بری طرح تھک چکے تھے اور اس بے کار اور لاحاصل بحث سے نجات پانا چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب ، قطر کو کہا اب کشکول نہیں ،پروگرام لیکرآوں گا: وزیراعظم
دوست کا خروج
پھر اچانک وہ کسی روٹھے ہوئے دوست کی طرح وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ باہر چلا گیا۔ وہ اتنا جلا بھنا ہوا تھا کہ اس نے رخصتی کے وقت روایتی الوداعی کلمات بھی نہ کہے تھے۔ میں بھی اٹھ کر کاؤنٹر تک گیا اور وہاں سے تازہ اور ٹھنڈے جوس کا ایک اور گلاس اٹھا لایا اور اپنے آپ کو معتدل رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ریاض کی جانب سے سنیئر مینجر شیخ ارشد کے اعزاز میں الوداعی تقریب منعقد کی گئی
اہرام مصر کی جانب سفر
ہوٹل والوں نے ایک معاہدے کے تحت آج مجھے ایک گائیڈ مہیا کرنا تھا جس نے باقاعدہ ایک پروگرام کے مطابق مجھے قاہرہ اور اس کے مضافات میں لے جانا تھا۔ میرا آج کا دن بڑا ہی مصروف ہونے جا رہا تھا اور میں نے ذہن میں کئی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے۔ آج مجھے گیزہ (Giza) جانا تھا، جو قاہرہ کے وسطی علاقے سے کوئی پندرہ بیس کلو میٹر دور دریائے نیل کے اس پار ایک قدیم اور جدید شہر تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سیکیورٹی ذرائع: خیبر پختونخوا سے فوجی دستے اسلام آباد روانہ
تاریخی شہر کا پس منظر
یہ علاقہ ایک وقت میں فرعونوں کا پایہ تخت تھا اور ان کے مدفن، اہرام، معبد اور دوسری ساری عبادت گاہیں یہاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ حالانکہ اسی پائے کا ایک شہر انہوں نے وسطی مصر میں بھی بسا رکھا تھا جس کا آج کل کا نام الاقصر (Luxor) تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ساڑھے 6 سال بعد ڈیوڈ وارنر کے آسٹریلوی کپتان بننے پر عائد پابندی ختم
گائیڈ کے ساتھ تعارف
جب میں اپنا لباس تبدیل کرکے نیچے استقبالیہ پر آیا تو وہاں بیٹھی ہوئی خوبرو مصری حسینہ نے نزدیک بیٹھے ہوئے اپنے ہی ایک ہم عمر نوجوان لڑکے کو بلوا کر اس سے میرا تعارف کروایا، جس کو اگلے تین دن کے لیے میرا راہبر بننا تھا۔ اس کا پورا نام تو عبدالفتاح تھا لیکن میں بھی دوسرے مصریوں کی طرح اسے صرف عبدو کہہ کر ہی پکاروں گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا پاور سیکٹر اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنا: ورلڈ بینک
معاوضہ اور پروگرام
اس نے مجھ سے ایک دن کے 15 پونڈ بطور محنتانہ طلب کیے جو اس وقت کے مصری معیار کے مطابق ایک اچھی خاصی رقم تھی۔ بہرحال، میں نے یہ معاوضہ معقول سمجھ کر فوراً ہی حامی بھر لی۔ اس نے مجھے ایک کاغذ تھمایا جس پر میرا اگلے 3 دن کا پروگرام تحریر تھا، میں وہیں کھڑا رہ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ (جاری ہے)
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔