“کالے سانپ کے دانت، بارش میں پھنسے پرندے اور ‘مین آف دی میچ’ مولانا: رات گئے پارلیمان اور سوشل میڈیا پر کیا کچھ گزر گیا؟”
مہینوں کی بحث و مباحثہ، اتحادی پارٹیوں کی ناراضگی اور پھر انہیں منانے کے بعد، مجوزہ ترمیم کے مسودوں پر بحث کے نتیجے میں، کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اراکین پارلیمان کو مبینہ طور پر اس ترمیم کے حق میں ووٹ کے لئے ہراساں کرنے کے دعوؤں کے بعد، آخرکار پیر کی صبح پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کے بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔
یہ ترمیم پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے اتوار کی رات دس بجے منظور ہوئی، جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس رات دھائی بجے شروع ہوا اور پیر کی صبح پانچ بجے اس کی حیثیت مکمل ہوئی۔
سینیٹ میں اس ترمیم کے حق میں 65 ووٹ پڑے، جن میں 23 ووٹ پیپلز پارٹی کے، 19 ن لیگ کے، پانچ جے یو آئی ف کے، چار بلوچستان عوامی پارٹی کے، تین ایم کیو ایم کے، تین اے این پی کے، دو بی این پی کے، چار آزاد سینیٹرز کے جبکہ ایک، ایک ووٹ ق لیگ اور نیشنل پارٹی کے اراکین کا تھا، جبکہ چار اراکین نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔
ووٹنگ کے آغاز سے پہلے پاکستان تحریک انصاف اور مجلس وحدت المسلمین کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد واضح کیا کہ اگرچہ ان کی جماعت مشاورت میں شریک رہی، لیکن وہ اس بل کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔
اس بل کی منظوری کے لئے حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں 224 اراکین کے ووٹ درکار تھے، جنہیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چار آزاد امیدواروں اور مسلم لیگ ق کے ایک امیدوار کی مدد سے پورا کیا گیا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کا بل صدر مملکت کو بھیجا جائے گا، جن کی منظوری کے بعد یہ آئین کا حصہ بن جائے گا۔
اتوار کے روز بھی سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں کی خبریں ملی، جبکہ اس ترمیم کی منظوری کے لئے نمبرز مکمل کرنے اور 'اتفاق رائے' پیدا کرنے کی کوشش میں دونوں ایوانوں کے اجلاس مؤخر ہوتے رہے۔ کچھ رہنماؤں نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ اُن کے اراکین پر اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔
جب سینیٹ سے یہ ترمیم منظور ہوئی تو سینیٹر فیصل واوڈا نے میڈیا کے نمائندوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ 'بھائی! ابھی تو ڈگّی کھولے بغیر ہی ہو گیا ہے۔ ابھی تو ڈگّی میں بھی اتنے سارے پرندے ہیں، ان کو بھی آزاد کرنا ہے...'
یاد رہے کہ اس بل کو سینیٹ سے پاس کروانے کے لئے حکومتی اتحاد کو تحریک انصاف کے سینیٹرز کے ووٹ نہیں ملے تھے۔ فیصل واوڈا کا اشارہ بھی یہی تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ سب پلان کا حصہ تھا۔ پاکستانی قوم کو پتا ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی میں ایک بڑا فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے، جسے ایک دانشمند سیاستدان لیڈ کریں گے۔'
بہرحال قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے چار اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن نے حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی۔ پچھلی رات یہ الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے کئی ممبران پارلیمان پارلیمان کی گیلری میں موجود ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ان الزامات کا جواب دینے کے لئے زین قریشی اور دیگر پی ٹی آئی ممبران نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور ان کی تردید کی۔
تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مولانا نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا ہے تو اُن کا حق بنتا ہے کہ وہ اس کارروائی میں حصہ نہ لیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجموعی طور پر ہم نے اس کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی اتفاق کیا ہے۔‘
اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے کالے سانپ کی وضاحت نہیں کی تاہم بعدازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’جس کالے سانپ کی آج یہاں بات ہو رہی ہے وہ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔‘
تاہم بہت سے صارف اس بیان سے متفق نہیں ہوئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’مولانا فضل الرحمان عمران خان کی قید اور پی ٹی آئی کی غیر فعال قیادت کی شکل میں ایک موقع دیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو پوزیشن کر رہے ہیں خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ ’کالا ناگ‘ دراصل بانی پی ٹی آئی تھے جن کا اثر انھوں نے پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔‘
بلاول بھٹو اور دیگر بہت سے سیاسی رہنماؤں کی طرح بہت سے صارفین بھی اس معاملے میں مولانا فضل الرحمان کی سیاست کی تعریف کرتے نظر آئے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم کو آگے بڑھانے میں مولانا فضل الرحمان کا اہم کردار سیاسی پیچیدگیوں کے بارے میں ان کی غیر معمولی سمجھ کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کی قیادت پاکستان کے لیے مشکل وقت میں ایک مینار بنی ہوئی ہے۔‘
علی بلوچ نامی صارف نے لکھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم کا ٹیسٹ میچ حکومت نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد جیت لیا، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ کم عددی اکثریت رکھنے والے مولانا مین آف دی میچ ثابت ہوئے۔‘
اسی طرح چند صارفین قومی اسمبلی کا اجلاس صبح پانچ بجے تک چلنے پر بھی اپنی آرا دیتے رہے۔ صحافی حامد میر نے لکھا کہ ’پانچ دن پہلے یہ تو پتہ تھا کہ آئینی عدالت نہیں بلکہ آئینی بینچ بنے گا، لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کچھ فجر کے قریب ہو گا۔‘